مزید خبریں

!دو دوستیں، دو کہانیاں، دو الگ انجام

اور یہ کہانیاں حقیقت سے قطعی متضاد نہیں۔۔تعلیمی اداروں میں کہیں اہسے دوست ملتے ہیں جو یا تو آخرت بھی سنوار دیں یا تو ایسے جو دنیاوی زندگی بھی برباد کردیں۔۔

اور انہی تعلیمی اداروں میں جمعیت ایک شفیق دوست کی حیثیت سے موجود، طالبات کی زندگی سنوارنے کیلئے ہم تن کوش ہے۔ جو اپنی آغوش میں سینکڑوں طالبات کو خدا اور مقصد زندگی سے جوڑ چکی ہے اور باقیوں پر کام جاری ہے!

So Girls,
What’s your plan?

ایک ایسے دوست کی رفاقت جو دنیا بھی سنوار دے اور آخرت بھی یا ایسے دوست کا ساتھ جس پر پچھتاتے ہوئے قیامت والے دن کہنا پڑے،

ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔”(سورہ الفرقان:28)

منزل سے ناآشنا میں، چلی تھی جانب منزل۔۔

تیرا ساتھ ملا تو، یوں حقیقی منزل سے آشنا ہوئی میں۔۔

نیلے آسمان پر چمکتی دھوپ روئے زمین پہ پھیلے انسانوں کو جہاں تپش دے رہی تھی وہی رب کی قدرت کے مناظر آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہے تھے چونکہ سمندر کی ان تیز رفتار میں آتی لہریں اپنے ساتھ ہلکے پھلکے تو کبھی تیز ہوا کے جھونکے بھی لارہی تھی۔ تھی تو بہت بھیڑ کنارے اس سمندر کے مگر ان مناظر کو محسوس کرتا دل ضرور سکون پارہا تھا۔ ایسے میں کئی لوگوں کے درمیان کھڑی اک پھول سی لڑکی جس کا چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوا تھا، سمندر کی لہریں آتی جاتی دیکھ کر ،پاوں سمندر کی جانب بڑھاتی، اپنے عبایا کو یہاں وہاں سے سنبھالتی، خوب پکنک انجوائے کر رہی تھی۔ ساتھ یہاں وہاں سے آتے سب کے طعنز و طعنوں کو بہت ہی صبر و تحمل سے سہہ رہی تھی۔ پر ظاہری طور پر خوشی ظاہر کر رہی تھی کیوں کہ وہ باطنی طور پر بھی بہت مطمئن تھی کہ اسے اللہ سے محبت ہے اس لیے اسے لوگوں کے رویوں کی فکر نہیں تھی۔

مگر کیا یہ آسان تھا؟ نہیں تو، اس دور فتن میں قرآن کے احکامات پر چلنا اور خود کو ان فتنوں سے بچا کر رکھنا آسان تو نہیں ہے، لیکن ناممکن بھی تو نہیں ہے۔ ان لمحات میں وہ اللہ ربی کی ایک بہت بڑی نعمت کی شکر گزار تھی۔ کہ وہ نعمت جمعیت ہی ہے جس نے اسے اس پرفتن دور میں وہ مشعل راہ دکھائی جس نے اسے دین کی راہ پہ اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھنا سکھایا۔ کہ اے اگر کاش جمیعت کا ساتھ نہ ہوتا تو میں کیا کرتی۔ کیا میں قرآن سے جڑ پاتی؟ کیسے میں اپنے اصل حیات مقصد کو پہچانتی۔ جمعیت نے زندگی کے اصل مقصد کے لیے جینا سکھایا۔ ہر گرتے لمحے تھام لیا۔ اے “کاش” تیرا تصور بھی نہیں کرسکتی میں، کیونکہ میں اپنی جمعیت” سے دوری نہیں سہہ سکتی۔

قدرت کے حسین مناظر دیکھ رہی تھی، لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس نے کسی کے بھی کہنے پر نقاب نہ اٹھایا تھا، کیونکہ اسے اللہ کا کہنا(حکم) ماننا تھا۔ اور اس پھول سی لڑکی نے جمعیت کے سنگ وہ اک مثال قائم کردی کہ “بندہ حدود اللہ میں رہ کر سب کچھ کرسکتا ہے ، ورنہ اگر وہ پردہ نہ کرتی تو زمانے کی گندگی اسے بھی گندہ کردیتی۔”

میری تکمیل میں حصہ تمہارا بھی ہے
میں اگر تجھ سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا