مزید خبریں

قبول اسلام کے بعد تجدید نکاح

سوال: ہمارے ملک میں آئے دن قبول اسلام کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس میں بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور خواتین سبھی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات پورا گھرانہ اسلام قبول کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام مرد عورت کو نکاح کے پاکیزہ بندھن میں جوڑتا ہے، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اسلام سے قبل میاں بیوی شادی کے جس بندھن میں بندھے تھے، کیا اسلام کے بعد بھی اسے پاکیزہ قرار دیاجائے گا یا نہیں؟ اگر پاکیزہ قرار دیاجائے گا تو کن بنیادوں پر؟ براہ مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: دیگر مذاہب کے ماننے والے مرد اور عورت اگر اپنے مذہب کے مطابق نکاح کے بندھن میں بندھے ہوں تو اسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ’امرأ فرعون‘ (القصص:9) ’امرأ العزیز‘ (یوسف: 21,30,51) ’امرأ ابی لہب‘ (لھب: 4) وغیرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی جوڑا اسلام قبول کرے تو اس کے نکاح کی تجدید کی ضرورت نہیں۔ عہد نبوی میں جو حضرات اپنی بیویوں کے ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں سے کسی کے بارے میں مذکور نہیں کہ رسولؐ نے ازسرِنو اس کا نکاح پڑھایا ہو۔ شرح السنۃ میں ہے کہ ’’بہت سی خواتین نے اسلام قبول کیا، بعد میں ان کے شوہر بھی اسلام لے آئے تو نبیؐ نے سابقہ نکاح پر ہی انھیں ان کے شوہروں کے حوالے کردیا‘‘۔ سیدہ ام حکیم بنت حارثؓ کا واقعہ مشہور ہے۔ وہ اسلام لائیں، مگر ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام قبول نہیں کیا اور بھاگ کر یمن چلے گئے۔ ام حکیم کی خواہش پر آں حضرتؐ نے انھیں امان دے دی۔ وہ یمن جاکر انھیں بلالائیں اور ان کی کوشش سے عکرمہؓ ایمان لے آئے۔ آپؐ نے انھیں ان کے سابقہ نکاح پر باقی رکھا۔ (موطا امام مالک)
الموسوعۃ الفقہیۃ کویت میں ہے:’’زوجین کا نکاح اگر حالتِ شرک میں جائز طریقے سے ہوا تھا تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے درست ماناجائے گا‘‘۔
مشہور عالم دین مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں یہ فتویٰ دیا ہے:
’’شوہر اور بیوی پہلے ہندو تھے اور انھوں نے ہندو طریقے کے مطابق نکاح کیا تھا اور اس کے بعد خدا کی توفیق سے دونوں مسلمان ہوگئے تو دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں۔ اسلام لانے کے بعد بلاتجدید نکاح دونوں میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں‘‘۔ (فتاویٰ رحیمیہ)