مزید خبریں

خطرہ ہے تو کہیں اور جائیں،بتائیں جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا؟چیف جسٹس وفاق اور سندھ حکومت پر برہم

کراچی(اسٹاف رپورٹر)خطرہ ہے تو کہیں اور جائیں،بتائیں جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا؟ چیف جسٹس وفاق اور سندھ حکومت پر برہم۔عوام کو پانی ،بجلی کچھ نہیں مل رہا،کیا سارا پیسا تنخواہوں میں دیتے رہینگے،چیف جسٹس۔منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم۔تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے رینجرز ہیڈ کوارٹر سمیت سرکاری اور نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے دیا۔عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف
جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں شہر میں انسداد تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے گورنر ہاؤس اور سی ایم ہاؤس کے باہر سے بھی تجاوزات ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے تین دن میں تمام تجاوزات ختم کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ، راستے بند کرنا اور رکاوٹیں ڈالنا غیر قانونی ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومت خود تجاوزات کھڑی کررہی ہے۔عدالت نے کہا کہ تجاوزات کے خاتمے کا بل سینئر افسر کو بھیجیں، اس کی جیب سے اخراجات وصول کریں، جو لوگ پیدل چلتے ہیں ان سے پوچھیں کس تکلیف میں ہیں، انگریزوں کے زمانے کے درختوں کے سائے میں لوگ بیٹھتے ہیں ثواب تو انگریز کما رہے ہیں، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کے ایم سی کی جو سڑکیں ہیں انہیں تجاوزات سے صاف اور اس بارے میں رینجرز کو ہدایت کردی جائے۔بعدازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے حکم نامے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی اداروں کو آگاہ کرنے ، تمام متعلقہ اور سکیورٹی اداروں کو عدالتی حکم کی کاپی بھیجنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں نیول، رینجرز ہیڈ کوارٹرز، گورنر، سی ایم ہاؤس، سب کا فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکورٹی کے ایشوز ہیں ، بم حملے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پبلک پر حملے ہوتے رہیں اور آپ محفوظ رہیں؟ یہ کہاں کا قانون ہے؟ خطرہ ہے تو چلے جائیں کہیں اور خالی کردیں یہ جگہ، کہیں محفوظ جگہ چلے جائیں، بتائیں رینجرز ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور فٹ پاتھ کہاں ہے؟ جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، میئر بھی آئے ہوئے تھے، کہاں ہیں؟ سیکورٹی کے نام پر بند مت کریں سڑکوں کو، اگر زیادہ ڈر لگتا ہے تو کہیں ریموٹ ایریا میں جاکر بیٹھ جائیں، دنیا میں کہیں ہوتا ہے ایسا؟ جائیں امریکا اور دیکھ کر آئیں۔چیف جسٹس نے کے ایم سی وکیل سے کہا کہ آپ کیوں نہیں ہٹاتے رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے تجاوزات؟ کل لگاتے ہیں کیس، بتائیں تفصیل۔ یہ جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا ہے؟ ہٹائیں یہ سب، چھوٹے لوگوں کے گھر توڑ دیے یہ بھی ہٹائیں، بعد میں معاوضہ دے دیجیے گا، تھوڑی سی زندگی ہے اس کو بچاتے رہیں، کیا طریقہ ہے وی آئی پی بنے پھرتے رہیں، میں نے تو منع کردیا ہے میرے لیے روٹ نہ لگائیں، آئی جی کو کہا ہے اب روٹ لگائیں گے تو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر ہاؤس کے اندر رکھ دیں کنٹینرز ،باہر کیوں رکھتے ہیں؟ پبلک کو پریشان کرنا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے اگر انکروچمنٹ ہے تو وہ بھی توڑ دیں، رکاوٹیں ہٹانے میں جو اخراجات آئیں، کے ایم سی متعلقہ ادارے کے سربراہ سے وصول کرے۔علاوہ ازیں عدالت میں غیرقانونی عمارت تجوری ہائٹس کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت کے پوچھنے پر وکیل نے بتایا کہ تجوری ہائٹس گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا ہے۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ عدالت نے تین ماہ میں متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا، آپ لوگوں کے پیسے واپس کریں۔ بلڈر کے وکیل نے کہا کہ متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جاچکا ہے جو رہ گیا ہے اسے بھی دے دیں گے۔علاوہ ازیںچیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لوگوں کی بات کریں، انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسا تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟۔ عدالت عظمیٰ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا۔ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا۔ ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے۔ لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ملازمین بھر تی کررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے۔ صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں۔ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اْڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟وکیل نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں، پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔دریں اثناء عدالت عظمیٰ نے غیرقانونی طور پر تعمیر کرنے پر منہدم کیے گئے نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو آکشن کر کے متاثرین کو پیسے دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور کے متاثرین کی درخواست پر سماعت ہوئی۔وکیل متاثرین نسلہ ٹاور نے بتایا کہ ہم کوئی 40 متاثرین ہیں ، نسلہ ٹاور کا مالک انتقال کر گیا ہے ، تاحال ہم کو معاوضہ نہیں دیا گیا، ہم کو معاوضہ ملنا تھا۔ عدالت نے حکم دیا کہ نسلہ ٹاور سے جڑا رفاعی پلاٹ تھا جس کے باعث اس کو گرایا گیا تھا، نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو آکشن کر کے متاثرین کو پیسے دیے جائیں۔عدالت نے سندھی مسلم سوسائٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر اس سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، پلاٹ کی فروخت سے پہلے اشتہار دیا جائے، متاثرین اپنی ملکیت کی دستاویزات اور جو پیسے جمع کرائے تھے اس کی تفصیل جمع کرائیں۔دوسری جانب عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری نے گجر، اورنگی ٹائون اور محمود آباد نالے کے متاثرین کو 1 ماہ میں الاٹمنٹ دینے کا حکم دے دیا۔عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں گجر، اورنگی ٹائون اور محمود آباد نالہ متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے کی۔دورانِ سماعت عدالت عظمیٰ نے سوال کیا کہ اب تک کیا عمل درآمد ہوا ہے؟ اگر نالے کے مزید متاثرین ہیں تو ایک ماہ میں اے ڈی سی ٹو سائوتھ سے رجوع کریں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ متاثرین کو 80 گز کا پلاٹ اور کنسٹرکشن کی رقم دے رہے ہیں، کنسٹرکشن کی رقم کا تخمینہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے لگوایا جا رہا ہے۔عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت اس سے متعلق تمام معاملات خود حل کر کے رپورٹ پیش کرے۔قبل ازیںچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا ہے کہ عدالتی معاملات میں ’مداخلت‘ برداشت نہیں کریں گے۔کراچی میں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا میں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا شکر گزار ہوں، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا بھی شکر گزار ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ بلوچستان پہلے ایک ہی ہائیکورٹ ہوا کرتی تھی، یہ میرا اس بار روم کا پہلا وزٹ ہے، میں جب اپنے والد صاحب کے ساتھ آتا تھا یہ بار روم نہیں ہوتا تھا، گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں کراچی آتے تھے، سندھ ہائیکورٹ سے میری یادیں وابستہ ہیں جوکہ تاریخی عمارت ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہا کہ میں ایک چیز کہنا چاہتا ہوں، جب سے میں چیف جسٹس بنا ہوں مجھے ایک بھی جج کی مداخلت سے متعلق شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے واضح کیاکہ مداخلت قابل قبول نہیں، لیکن جو بھی واقعات رپورٹ ہوئے وہ ان کے عہدہ سنبھالنے سے قبل کے ہیں۔