مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

وحشت کا الزام
…دوسرا اعتراض‘ جو پبلک میں تو دبی زبان سے مگر نجی صحبتوں میں بڑی کافرانہ جسارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ یہ ہے کہ اسلامی قانون میں بہت سی چیزیں قرونِ وسطیٰ کی تاریک خیالی کے باقیات میں سے ہیں جنھیں اس مہذب دور کے ترقی یافتہ اخلاقی تصورات کسی طرح برداشت نہیں کرسکتے‘ مثلاً ہاتھ کاٹنے اور درّے مارنے اور سنگسار کرنے کی وحشیانہ سزائیں۔
یہ اعتراض سن کر بے اختیار ان حضرات سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
جس دور میں ایٹم بم استعمال کیا گیا ہے‘ اس کے اخلاقی تصورات کو ترقی یافتہ کہتے وقت آدمی کو کچھ تو شرم محسوس ہونی چاہیے۔ آج کا نام نہاد مہذب انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے اس کی مثال تو قدیم تاریخ کے کسی تاریک سے تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔ وہ سنگسار نہیں بم بار کرتا ہے۔ محض ہاتھ ہی نہیں کاٹتا‘ جسم کے پرخچے اْڑا دیتا ہے۔ درّے برسانے سے اس کا دل نہیں بھرتا‘ زندہ آگ میں جلاتا ہے اور مْردہ لاشوں کی چربی نکال کر ان کے صابن بناتا ہے۔ جنگ کے ہنگامۂ غیظ و غضب ہی میں نہیں‘ امن کے ٹھنڈے ماحول میں بھی جن کو وہ سیاسی مجرم‘ یا قومی مفاد کا دشمن‘ یا معاشی اغراض کا حریف سمجھتا ہے ان کو دردناک عذاب دینے میں وہ آخر کون سی کسر اْٹھا رکھتا ہے؟ ثبوت جرم سے پہلے محض شبہے ہی شبہے میں تفتیش کے جو طریقے اور اقبالِ جرم کرانے کے جو ہتھکنڈے آج کی مہذب حکومتوں میں اختیار کیے جا رہے ہیں وہ کس سے چھپے ہوئے ہیں… فرق جو کچھ واقع ہواہے وہ دراصل اخلاقی قدروں میں ہے۔ ان کے نزدیک جو جرائم واقعی سخت ہیں اْن پر وہ خوب عذاب دیتے ہیں اور دل کھول کر دیتے ہیں‘مثلاً ان کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنا‘ یا ان کے معاشی مفاد میں مزاحم ہونا۔ لیکن جن افعال کو وہ سرے سے جرم ہی نہیں سمجھتے‘ مثلاً شراب سے ایک گونہ بے خودی حاصل کرلینا‘ یا تفریحاً زنا کرلینا‘ ان پر عذاب تو درکنار‘ سرزنش اور ملامت بھی انھیں ناگوار ہوتی ہے۔ اور جرم نہ سمجھنے کی صورت میں لامحالہ وہ ناگوار خاطر ہونی ہی چاہیے۔ (اسلامی قانون، ترجمان القرآن، جولائی 1948)
٭…٭…٭
خدا کا خیال
سب سے پہلے میں آپ سب حضرات کو خدا سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے اور اسی کی خوشنودی چاہنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ہماری اس دعوت کا سارا انحصار ہی تعلق باللہ اور توجہ الی اللہ پر ہے۔ کوئی شخص خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا‘ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود راہِ راست پر قائم بھی نہیں رہ سکتا‘ اگر خدا کا خوف اس کے دل میں نہ ہو اور تقویٰ کی گرفت اس کی خواہشات پر مضبوط نہ ہو‘ اور اس کی تمام سعی و جہد اور دوڑ دھوپ میں رضاے الٰہی کی طلب کارفرما نہ ہو۔ دنیا میں آدمی کی راست روی کی ضامن صرف ایک ہی چیز ہے‘ اور وہ ہے خدا کا خیال۔ یہ خیال اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی دل سے نکل جائے‘ اگر ذرا سی غفلت بھی طاری ہوجائے‘ تو انسان کا قدم سیدھی راہ سے ہٹنے لگتا ہے۔ پھر جسے محض راہِ راست پر چلنا ہی نہ ہو بلکہ دنیا کو اس پر چلانا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو اس کی طرف کھینچ کر لانا بھی ہو‘ اس کے لیے تو ناگزیر ہے کہ خدا سے اس کا تعلق ہروقت مضبوط اور خدا کی طرف اس کی توجہ ہر آن مرکوز رہے‘ ورنہ اْس سے غافل ہوکر وہ اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہوئے نہ معلوم کس کس قسم کے فسادوں کا مرتکب ہوجائے گا۔ لہٰذا میری پہلی نصیحت آپ کو اور ان سب لوگوں کو جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں‘ یہ ہے کہ اپنے ذہن میں اللہ کی ذات و صفات کا تصور ہر وقت تازہ رکھیں اور اپنے تمام کاموں میں اسی کی خوشنودی پر نظر جمائے رہیں۔ جن تحریکوں کے پیش نظر صرف دنیا اور اس کے معاملات ہی ہیں‘ وہ تو چل سکتی ہیں بغیر اس کے کہ خدا کا خیال کبھی دل میں آئے‘ مگر یہ تحریک ایک قدم بھی ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک کہ اس کے خادم پورے شعور کے ساتھ خدا سے خشیت اور تقویٰ اور رضا طلبی کا تعلق نہ جوڑے رکھیں۔
(جماعت اسلامی کی دعوت، ترجمان القرآن، ستمبر 1948ء)