مزید خبریں

قافلہ ختم نبوت مسجد اقصیٰ میں

مولانا سہیل باوا خادم ختم نبوت
الحمدللہ قافلہ ختم نبوت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے قافلے میں ایک اور بہن USA سے تشریف لائیں۔۔۔انکی تفصیل اگلی سطور میں ملاحظہ کیجئیے گا۔ پہلے مسجد اقصیٰ کی بات، مسجد اقصی کا مکمل احاطہ 35 ایکڑ جگہ پہ مشتمل ہے ۔اسمیں 4 کوارٹر ہیں ۔۔مسلم کوارٹرکرسچن کواٹر جیوش کوارٹر آرمینین کوارٹرمسجد اقصی میں جو سنہرا گنبد ہے اس کے بالکل نیچے صعود الی السماء ہے یعنی عیسی علیہ السلام آسمانوں پہ اٹھائے گئے۔۔ اور ایک روایت کے مطابق معراج کے لئے بھی نبی ﷺ ادھر سے تشریف لے کر گئے تھے۔ ہمارے استاد محترم نے فرمایا کہ اگر جنت سے کوئی پتھر نیچے پھینکا جائے تو وہ سیدھا اس گنبد پہ آکر لگے گا۔۔یعنی بالکل اسکی سیدھ میں جنت ہے ۔۔اس میں باب الانبیاء سے نبی علیہ السلام داخل ہوئے تھے۔۔۔اسکے نیچے ایک غار بھی ہے ۔چٹان کو صفا مروہ کی طرح چاروں طرف سے شیشے میں بند کیا ہوا ہے۔۔فجر میں دونوں دن قنوت نازلہ پڑھی گئی۔یہ پورا سال قنوت نازلہ پڑھتے ہیں۔۔۔فجر کے بعد استاد محترم نے بتایا کہ اس مسجد میں فوت ہونا شہادت کا درجہ رکھتا ہے (۔آج قافلے میں مولانا احفاظ صاحب امریکہ سے مع اہلیہ تشریف لائے اور مجھے یہ بات اچانک انکی اہلیہ محترمہ سے باتوں کے درمیان کئی گھنٹوں بعد معلوم ہوئی کہ انکی اہلیہ محترمہ مجددالقراءات قاری رحیم بخش صاحب نور اللہ مرقدہ کی نواسی اور ہماری استانی جی مرحومہ کی بھانجی ہیں۔۔۔جب یہ معلوم ہوا تو جذبات کی کیفیت عجیب ہوگئی ۔ا ن کے ساتھ گزرے یہ لمحات ,استانی جی مرحومہ اور خالہ جان کی باتیں بہت اطمینان کا باعث بنیں۔۔۔اللہ پاک میری استانی جی مرحومہ محترمہ جنکا ابھی پچھلے ماہ انتقال ہوا انکو جنت الفردوس کا اعلی مقام عطا فرمائے اور ہمیں انکے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔۔) نبی ﷺ جب معراج کے سفر سے واپس تشریف لے گئے تو مشرک لوگوں نے کہا کہ کیا آپ مسجد کے دروازے اور کھڑکیوں کی تعداد بتا سکتے ہیں؟اس بات پہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے جو بات نکلے اس کا انکار ممکن ہی نہیں۔ آپ ﷺ بالکل سچ فرما رہے ہیں اس موقعہ پہ آپ ﷺ کے سامنے مسجد اقصی اللہ نے ظاہر کردی لیکن ضدی لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے۔اور جس نے ماننا تھا وہ پہلے ہی تصدیق فرما چکے تھے جنکو صدیق کا لقب ملا۔۔جس روز ہم مسجد اقصیٰ اور زیارات کے لیے گئے تھے وہ 27 اپریل تھی اور مسلمانوں اور اسرائیلی فوج میں کشیدگی تھی اس لیے زیارات کی ترتیب ملتوی ہوئی کیونکہ تنائو کی صورتحال تھی۔ باہر سڑکوں پر ٹریفک جام ہونے کا خدشہ تھا۔استاد محترم نے تین بلاک
جو مختلف طرز پہ بنے ہیں انکی تفصیلات بتائیں ۔۔دور فاروقی دور عثمانی اور دور اموی کے الگ الگ بلاک تھے۔ موذنین مسجد اقصی کا مقام بیان فرمایا۔ جنت میں سب سے پہلے انبیاء علیھم السلام پھر موذنین اقصی داخل ہوں گے سبحان اللہ ۔۔۔۔اور یہاں کی جمعے اذان یہاں کے شہداء بھی سنتے ہیں۔۔انکے بعد بیت اللہ کے موذنین داخل ہوں گے ۔پھر مسجد نبوی ﷺ کے موذن داخل ہوں گے۔۔۔مغرب کی اذان بھی کبھار خاص موذن دیتے ہیں۔۔مسجد اقصی کہ فتح عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی ۔تو عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ کیا کہ مسجد کہاں بنائی جائے۔۔سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ صخرہ یعنی چٹان پہ مسجد بنا لی جائے تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کو منظور نہیں فرمایا چٹان پہ مسجد کیوں بنے؟اور پھر آگے جب مسجد قدیمی میں پہنچے اور سلیمان علیہ السلام کی بنیادوں سے بنوائی گئی مسجد دیکھی تو اسکے ساتھ مسجد بنانے کا حکم دیا جسے مسجد قبلی کہا جاتا ہے ۔اس میں محراب عمر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی پہ کھڑے ہوکر بہت خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا ہے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کا محراب ہے ۔۔یہ دوسری بڑی فتح کے ہیرو تھے۔۔یہ محراب 2 سے 3 بار جلایا جاچکا ہے ۔۔سلطان صلاح الدین کے زمانے میں آرمی چیف نور الدین زنگی رحمہ اللہ تھے جنکی قبر شام میں ہے۔نور الدین زنگی کے سپہ سالار صلاح الدین تھے ۔۔نور الدین زنگی رحمہ اللہ نے منبر تیار کروایا تھا۔۔جسے صلاح الدین رحمہ اللہ نے اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا ۔۔ اس منبر کو 1992 اور 1994 میں جلا دیا گیا تھا اسکی کاپی پھر جورڈن کے شاہ حسین نے بنوائی تھی اب یہ اس منبر صلاح الدین کی کاپی ہے۔ اصل منبر کی باقیات میوزیم میں ہیں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے اپنی تنگدستی کی شکایت کی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسجد اقصی کی طرف اترو۔شائد اللہ تعالی تمہیں ایسی اولاد عطا فرمائے جو صبح کو جائے اور شام کو لوٹے ۔۔اس روایت میں دو بشارتیں ہیں۔ایک تو یہ مسجد اقصی کی تعمیر میں حصہ لیں گے دوسری یہ کہ انکے اولاد پیدا ہوگی۔۔۔ اسکے بعد ہم اس جگہ گئے جہاں باب الرحمہ اور باب الذھبی ہے جہاں سلیمان علیہ السلام نے جنات سے بنیادیں شروع کروائی تھی۔یہاں سرکش جنات کو قید بھی کیا کرتے تھے وہاں پہ ہی آپ علیہ السلام کا انتقال ہوا تھا۔اور جنات کو تب تک معلوم نا ہوسکا جب تک انکا جسم مبارک گر نہیں گیا۔۔۔اس کے بعد ساح الغزالی تھا جہاں ایک طرف امام غزالی نے احیاء العلوم آدھی لکھی تھی اور آدھی دمشق میں لکھی تھی۔بہترین کتاب ہے۔۔اس صحن کے بعد ایک جگہ تھی جس کے بارے میں عیسائی کہتے ہیں کہ یہاں مریم علیھا السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔قرآن میں مکانا شرقیا ہے اور یہ جگہ بھی مسجد اقصی کی شرقی جانب ہے تو امکان ہے کہ یہ جگہ وہ ہو لیکن اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ جگہ بیت اللحم میں ہے۔۔۔اسکے بعد عیسائیوں کے 14 اسٹیشنز میں سے دوسرا اسٹیشن دیکھا۔۔انکے بقول عیسی علیہ السلام کو 14 مقامات سے گزار کر اذیت سے گزار کر سولی پہ چڑھایا گیا تھا ( نعوذ باللہ )یہ راستہ جبل زیتون میں کلیس الآلام سے شروع ہوکر کنیس القائمہ پہ ختم ہوتا ہے۔اس راستے کو عربی میں طریق الآلام کہا جاتا ہے۔جسکا مطلب ہے تکلیفوں والا راستہ اس راستے کا آخری مقام کنیس القائمہ ہے۔کنیس القائمہ وہی چرچ ہے جو عیسائیوں کا سب سے بڑا اور اہم چرچ ہے یہاں انکے نزدیک ایسی مقرب جگہ ہے جیسے ہمارے نزدیک مدینہ منورہ۔۔۔یہ کرسمس کے دنوں میں بہت آتے ہیں یہاں۔پائوں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔۔یہ دنیا کا واحد چرچ ہے جہاں خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پادری نے نماز پڑھنے کی دعوت دی لیکن فاروق اعظم نے یہ سوچ کر انکار کردیا کہ کل کوئی مسلمان زبردستی اس چرچ کو مسجد نابنالے۔اور فرمایا میں یہاں سے پتھر پھینکوں گا جہاں پتھر گرے گا وہاں نماز ادا کروں گا۔اور پھر جس جگہ عمر رضی اللہ عنہ نے چرچ کے باہر نماز ادا کی وہاں صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے مسجد عمر تعمیر کروائی۔اس چرچ کو کھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری آج بھی مسلمانوں کے پاس ہے کیونکہ عیسائیوں کے 3 فرقوں کی لڑائی کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسکی ذمہ داری ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو سونپ دی تھی۔آج بھی یہ ذمہ داری ان انصاری کی اولاد کے سپرد ہے جو مسلمانوں کے پر امن ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لیکن افسوس کہ انہی عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔۔بہرحال دوسرے اسٹیشن کے بعد مقبرہ باب الرحمہ میں گئے جسکے اندر دو عظیم صحابہ کرام شداد بن اوس اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنھما کی قبریں ہیں۔اس مقبرے کی بائیں طرف پیچھے یہودیوں کا قبرستان ہے جسمیں ایک ایک قبر کئی ملین کی ہے ۔۔جبل زیتون اور کوہ طور بھی اس طرف ہے جہاں عیسی علیہ السلام یاجوج ماجوج کے فتنے کے وقت اپنے حواریوں کے ساتھ ہوں گے۔ ۔آج مسجد براق شریف اندر سے دیکھنے کی سعادت ملی جہاں نبی ﷺ نے براق کو باندھا تھا اور اسکی دائیں جانب والی دیوار وہی دیوار گریہ ہے یہاں جانور باندھ کر آپ علیہ السلام نے گنبد النبی یا مسجد قدیمی میں انبیاء علیھم السلام کی امامت کروائی تھی اور قبۃالصخراء کے عین اوپر سے آسمانوں پہ تشریف لے گئے تھے ۔یہ جگہ وہ جگہ ہے جسکی بالکل سیدھ میں جنت کا دروازہ ہے اور اسی جگہ سے عیسی علیہ السلام کا رفع ہوا تھا۔اسی جگہ قیامت کے دن اللہ پاک میزان قائم کریں گے ,اسی جگہ اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے اور یہی زمین محشر و نشر ہے ۔اللہ ہمیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے جائے۔۔اس جگہ ہر وقت فرشتے موجود رہتے ہیں۔یہاں بھی دجال داخل نا ہوسکے گا۔ہمارے قافلے میں ایک بات بہت اہم استاد جی اور باجی دونوں اپنے ساتھیوں کا پورا خیال رکھنے کی کوشش کرتے۔ باجی کو ہر ساتھی بہن کا خیال رہتا۔ جس کسی کی پریشانی پتہ چل جائے اسکا نام لے لے کر دعا کرتی رہیں۔سارے قافلے سے پہلے ہوٹل کی لابی میں باوجود تھکاوٹ کے موجود ہوتے معلوم ہوئی کہ۔۔۔اللہ پاک بہترین جزا عطا فرمائے۔