مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

’مشرک‘ کہنے میں احتیاط
میں نے جس قدر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو شرک کا ارتکاب کرے، یا جس کے عقیدے و عمل میں شرک پایا جائے، اس کو نہ اصطلاحاً ’مشرک‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خطاب اور اس معاملے کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک شرک ہی اصل دین ہے، جو توحید کو بنیادی عقیدے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے، اور وحی و نبوت اور کتاب اللہ کو سرے سے ماخذِ دین ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
میں یہ بات قطعی جائز نہیں سمجھتا کہ اْن لوگوں کو ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکین کا سا معاملہ اْن کے ساتھ کیا جائے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں، قرآن کو کتاب اللہ اور سند وحجت مانتے ہیں، ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کرتے، شرک کو اصل دین سمجھنا تو درکنار، اپنی طرف شرک کی نسبت کو بھی بدترین گالی سمجھتے ہیں، اور تاویل کی غلطی کے باعث کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس غلط فہمی میں پڑگئے ہیں کہ ان کے یہ عقائد و اعمال عقیدئہ توحید کے منافی نہیں ہیں۔
(رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، مارچ 1962)
٭…٭…٭
حدیث اور گناہ گار انسان
کسی حدیث کو رَد کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کے مضمون پر تھوڑا سا غور کرے اور اگر بات سمجھ میں نہ آئے، یا اس کا کوئی غلط مفہوم ذہن میں پیدا ہوجائے، تو بے تکلف یہ فیصلہ کردے کہ ’حدیث گھڑی ہوئی ہے‘، اور ایک نظریہ یہ بھی ساتھ ساتھ قائم کرے کہ ’فلاں فلاں وجوہ سے یہ گھڑی گئی ہوگی‘۔ اس طریقے سے احادیث پرکھی جانے لگیں تو نہ معلوم کتنی صحیح حدیثوں کو در یا بْرد کر ڈالا جائے گا۔ حدیثوں کو پرکھنے کے لیے علمِ حدیث کی گہری واقفیت ضروری ہے اور اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی میں بات کے مغز کو پہنچنے کی عمدہ صلاحیت ہو۔ اس طرح جب روایت اور درایت میں صحیح توازن قائم ہوجائے، تب انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ احادیث کو جانچ کر ان کی صحت و سقم اور ان کے مضمون کی معنوی حیثیت کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔
جس حدیث کے متعلق آپ نے تنقید کی ہے وہ مسلم، ترمذی اور مْسند احمد میں متعدد طریقوں سے منقول ہوئی ہے اور روایت کے اعتبار سے اس پر کوئی وزنی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ رہا اس کا مضمون، تو اس موضوع سے متعلق جو دوسری احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سب کے ساتھ ملا کر اسے پڑھا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ’’آدمی کو جان جان کر گناہ کرنا چاہیے اور پھر توبہ کرلینی چاہیے‘‘۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’انسان بالکل بے خطا اور بے گناہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اصل خوبی یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہو، بلکہ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ جب بھی اس سے گناہ سرزد ہوجائے ، وہ نادم ہو اور اپنے خدا سے معافی مانگے‘‘۔ اس مضمون کو ذہن نشین کرنے کے لیے نبیؐ نے فرمایا کہ اگر اللہ کو بے گناہ مخلوق ہی پیدا کرنی ہوتی، تو انسانوں کے بجائے کوئی اور مخلوق پیدا کرتا۔ انسان کو تو خدا نے نیکی اور گناہ دونوں کی صلاحیت و استعداد کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نوعیت کی مخلوق سے بے گناہی مطلوب نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو بڑے سے بڑا مقام یہی ہوسکتا ہے کہ بتقاضائے بشریت جب بھی اس سے قصور سرزد ہو، اس پر اصرار نہ کرے بلکہ نادم ہوکر استغفار کرے۔ (رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، نومبر 1962)