مزید خبریں

نجات کی راہ توبہ

روایات میں آتا ہے کہ رسول اکرمؐ طلب مغفرت کے سلسلے میں کبھی کبھی یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے ؎
’’اے اللہ! اگر تو معاف فرمائے تو سارے گناہ معاف فرما دے، بھلا ترا کون ایسا بندہ ہوگا جس نے گناہ نہ کیے ہوں؟‘‘ (ترمذی)
اسی مفہوم میں عربی کا ایک شعر ہے ؎
’’کون ایسا شخص ہے جس نے کبھی کوئی برائی نہ کی ہو اور جس کے پاس صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوں؟‘‘
حقیقت یہی ہے کہ کوئی اس بات کا دعوی نہیں کرسکتا: ’’ماساء قط‘‘ کہ اس نے کبھی کوئی برائی نہیں کی ہے اور ’’لہ الحسنی فقط‘‘ کہ اس کے پاس صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہیں، کیوں کہ نفس اور شیطان انسان کے دو سب سے بڑے دشمن ہیں، وہ ہر وقت انسان کے ساتھ لگے ہوئے، بلکہ اس کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہیں، انسانوں کو گناہ پر اکسانا ان کا وتیرہ اور غلط کاموں کی ترغیب دینا ان کا شعار ہے، اسی حقیقت کو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانی قرآن نے یوں بیان کیا ہے: ’’نفس تو (ہر ایک کا) بری ہی بات بتلاتا ہے، بجز اس (نفس) کے جس پر میرا رب رحم کرے‘‘۔ (یوسف: 53)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں، ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں کو کھاؤ ( برتو) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، فی الواقع وہ تمہارا صریح دشمن ہے، وہ تو تم کو ان ہی باتوں کی تعلیم کرے گا جو کہ (شرعاً) بری اور گندی ہیں اور (یہ بھی تعلیم کرے گا) کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کی تم سند بھی نہیں رکھتے‘‘۔ (البقرہ: 169-168)
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، اس نے انسانوں سے دشمنی گانٹھنے، انہیں گم راہ کرنے اور نیکی کی شاہراہ سے ہٹا کر گناہوں کی دلدل میں ڈالنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور پھر اس کی دیدہ دلیری کی انتہا یہ کہ اس کام کے لیے اس نے قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگ رکھی ہے، دوسری طرف اللہ کی شان بے نیازی کا یہ عالم کہ اس نے اس کی مانگ پوری بھی کر دی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’وہ (شیطان) کہنے لگا کہ مجھ کو مہلت دیجیے قیامت کے دن تک (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی گئی۔ وہ کہنے لگا، بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گم راہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا، پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں اکثروں کو احسان ماننے والا نہ پائیں گے‘‘۔ (اعراف: 14-17)
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی انسان خطاؤں سے خالی نہیں ہے، خطا اور لغزش انسانی سرشت میں داخل ہے۔ ایک حدیث میں رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر آدمی خطا کار ہے (کوئی ایسا نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش سرزد نہ ہو) اور خطا کاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو (خطا وقصور کے بعد) توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں‘‘۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)
اسی لیے اللہ تعالیٰ انسانوں کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اور برائیوں سے پھیر کر نیکیوں کی طرف لے جانے کے لیے ہر زمانے میں اپنے رسول اور پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے، پھر بھی انسانوں سے نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر اگر گناہ ہو جائیں تو ان کی مغفرت اور صفائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے انسانوں کو ایک عظیم سوغات اور سدا بہار تحفہ عطا کیا ہے اور وہ ہے ’’توبہ‘… توبہ لکھنے، بولنے اور سننے میں ایک بہت چھوٹا سا لفظ ہے، لیکن اپنے اندر معانی ومفاہیم کی ایک وسیع اور عظیم تر کائنات رکھنے والا ہے۔ انسان چاہے جس قدر بھی گناہ کر لے، حتی کہ کفر اور شرک کا بھی مرتکب ہو، لیکن جب وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف فرمادیتے ہیں، چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور گناہ کثرت میں ڈھیر لگتے لگتے اگر آسمان تک بھی پہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی معاف فرما دیتے ہیں او رکثرت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔
حدیث قدسی ہے: ’’توبہ کرنے سے انسان گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے، جیسے اس نے گناہ کیے ہی نہ ہوں اور آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو‘‘۔ (جامع ترمذی)
’’توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘۔ (سنن ابن ماجہ وبیہقی)
توبہ کرنے والا نہ صرف یہ کہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے اتنا خوش ہوتے ہیں جتنا کہ وہ شخص اپنی گم شدہ سواری کے مل جانے سے خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل بیابان میں ہو اور سواری پر کھانے پینے کا سامان لدا ہو اور وہ کہیں گم ہو جائے اور مالک کو اس کے ملنے کی طرف سے مایوسی ہو جائے اور پھر سواری اچانک مل جائے اور وہ مارے خوشی کے غلطی سے جلدی میں کہہ اٹھے: ’’اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم)
یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہی تو ہے کہ وہ بندوں کو خود ہی توبہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور معافی کا یقین بھی دلاتے ہیں۔
رسولؐ کا ارشاد گرامی ہے: ’’بندہ جب اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
’’میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو معاف کرتا ہوں، لہٰذا تم مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو، میں معاف کر دوں گا‘‘۔ (صحیح مسلم)
رب کریم کی شان کریمی کا یہ ظہور شب وروز ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری رہے گا جب تک کہ آفتاب بجائے مشرق کے مغرب سے نہ نکلے، جو قیامت کی نشانی ہے یا بندہ پر غرغرہ کی کیفیت نہ طاری ہو جائے۔
استغفار سے اللہ تعالیٰ نہ صرف گناہوں کی مغفرت فرماتے ہیں، بلکہ تنگی سے فراخی نصیب فرماتے ہیں، غموں سے نجات دیتے ہیں اور بے سان وگمان رزق عطا فرماتے ہیں۔ (مسند احمد، سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ)
توبہ اور استغفار صرف زبانی کافی نہیں ہے، زبان سے اللہ! توبہ !اللہ توبہ! کہنے سے توبہ نہیں ہوتی ہے، بلکہ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گناہوں پر شرمندگی ہو، خدا کی بڑائی کا خیال کرکے گناہ پر نادم اور پشیمان ہو اور آئندہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا مضبوط ارادہ کرے، حقوق اللہ تعالیٰ اور حقوق العباد میں سے جس قدر ضائع کیے ہوں، سب ادا کرے، تب پھر اللہ کی رحمت کا امیدوار ورخواست گار ہو۔