مزید خبریں

میولز مینشن کراچی برطانوی نوآبادیاتی فن تعمیر کا جوہر یگانہ

تصویر اور تفصیل محمد طارق خان
میولز مینشن، منوڑہ جانے والی کشتیوں کی جیٹی کے قریب کیماڑی کے علاقے میں واقع یہ عمارت بلا شبہ کراچی میں برطانوی وکٹورین عہد کی عمارتوں میں ایک عظیم ترین عمارت ہے، اس کا سنگ بنیاد 1885 میں رکھا گیا اور 1917 میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ اس کی زمینی منزل پر جہاز رانی کے سامان کے گودام اور ورکشاپس تھے، جبکہ پہلی اور دوسری منزلوں سمندری ملاحوں کے ہاسٹل اور تفریح طبع کے لئے برطانوی پب اسٹائل کا ایک شراب خانہ بھی تھا۔عمارت کے سامنے مرکزی شاہراہ ںسے دیکھنے پر یہ ایک ہی عمارت دکھائی دیتی ہے، تاہم یہ آٹھ الگ الگ تین منزلہ عمارت پر مشتمل ایک مستطیل نما مجموعہ ہے جس کی ہر عمارت دوسری عمارات سے جڑی مگر مکمل طور پر آزادانہ وجود رکھتی ہے۔ مرکزی سڑک نیپیئر مول بوٹنگ وہارف روڈ یعنی مغربی سمت چار عمارتیں ہیں، جبکہ شمال کی سمت میں ایک، مشرقی بازو میں دو (جن میں سے ایک کو موجودہ مالکان نے 1990 کے دہائی میں مخدوش قرار دے کر منہدم کردیا تھا)، اور جنوبی سمت میں سمندر کو رخ کرتی ایک عمارت ہے۔ شمالی جانب سے واحد مرکزی داخلہ دروازہ ہے جس سے گاڑیاں عمارات کے بیچوں بیچ واقع کھلے میدان میں آسکتی ہیں۔عمارت کے جنوبی حصہ میں تیسری منزل کے جنوب مغربی کونے پر، جیسا کہ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے، تاج نما رصد گاہ ہے جہاں دو سے تین لوگوں کے بیٹھنے کے لئے پتھر کی نشست لگائی گئی تھی، اس رصد گاہ سے بلڈنگ کے اصل مالکان جو ایک جہاز ران کمپنی کے مسلم بھی تھے، کراچی بندرگاہ میں داخل ہونے والے جہازوں کا نظارہ کرتے تھے۔ یہ رصد گاہ اب بھی موجود ہے مگر زینے اور چھت کی مخدوش حالت کی وجہ سے اس رصد گاہ میں داخل ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ موجودہ مالکان کی عدم دلچسپی اور دیکھ بھال کی کمی کے باعث اس پر شکوہ عمارت کی شان ماند پڑ گئی ہے۔ لال مٹی کے کھپریل سے بنی چھت اور وکٹورین طرز کے لاہے سے بنے زینے جا بجا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ کچھ بالکنیاں اور اندرونی راہداریاں بھی مخدوش ہو گر گئی ہیں، جبکہ بیرونی دیوار کے پتھر کا دودھیا خاکی رنگ گاڑیوں اور جہاز کے انجن کے دھویں اور بندرگاہ پر پر اترنے والے کوئلے کی کثافت سے تبدیل ہو کر سیاہی مائل ہو گیا ہے۔1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد، عمارت کے میں قائم ہوسٹل اور شراب خانے یا بار کو رہائشی فلیٹس میں تبدیل کر دیا گیا، جہاں ہندوستان سے ہجرت کرنے آنے والے کئی خاندانوں کو پناہ ملی، ان ہی میں سے ایک مشہور شاعر، مصنف اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم کا خاندان بھی تھا، جو مرکزی شاہراہ یا مغربی سمت میں واقع تیسری عمارت کی پہلی منزل پر 1990 کی دہائی تک مقیم رہے۔ ان کے علاؤہ اس عمارت میں زیادہ تر وہ خاندان رہائش پذیر ہوئے جن کسی فرد نے عمارت کے مالکان کی نجی جہاز ران کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ ان میں سے ایک خاندان ایک ناخدا یا کپتان کا بھی تھا۔ ان کے علاؤہ ایک کسٹم آفیسر، اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ایک افسر (میرے والد) بھی 1950 کے دہائی میں یہاں منتقل ہوئے، جنوبی سمت میں سمندر کے رخ پر واحد عمارت کی پہلی منزل پر رہتے تھے، 1976 سے میری ابتدائی زندگی کے بائیس برس اسے عمارت میں گزرے۔یہ عمارت کراچی کی عظمت رفتہ کا نشان ہے، جو عدم توجہی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے، حکومت اور کراچی کی بحالی کا کام کرنے والے اداروں کی ذرہ سے توجہ سے اس عمارات کی شان بحال اور اسے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔