مزید خبریں

زندگی کا سفر اور کامیابی

سفرِ زندگی میں ہر انسان کامیابی، ناکامی، مشکلات و مصائب، وقت اور حالات کی سختیوں کا سامنا کرتے ہوئے ہر آن کامیابی کے پیچھے دوڑتا ہے، کچھ مطلوبہ دنیوی کامیابی تک پہنچتے، کچھ رستے میں بھٹکتے اور کچھ پٹڑی سے اتر کر دنیا کے جھمیلوں میں گم اور حالات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اسی کشمکش میں زندگی کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔ اس تگ و دو میں ہر انسان کو کہیں نہ کہیں ایسے مواقع ملتے ہیں جو شعور و آگہی کے دریچے کھول دیتے ہیں۔ شعور و آگہی کی حقیقی منزل تو رب کی پہچان اور اسکی رضا کا حصول ہے، جو رب کی پہچان اور اس کی رضا کے شعور کی دولت کو پا لے تو پھر اس روشن رستے کے راہیوں کو دنیوی مشکلات، مصائب، تکالیف، کامیابی وکامرانی اِنہیں شعوری نظر میں رستے کی وقتی رکاوٹیں ہی نظر آتی ہیں۔ ذہنی و قلبی فکر میں گرفتار اس منزل کے راہیوں کے آگے کون بند باندھ سکتا ہے۔ وہ بے قرار روحوں کی طرح بہتے دریا کی موج اور موجوں میں روانی کی صورت دنیا و مافیہا کی رکاوٹوں، بندشوں اور سنگینیوں سے مقابلہ کرتے بیزار بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آج سے 75 برس قبل مرشد سید ابوالاعلی کی سرپرستی میں ایسے ہی چند پاکیزہ جوانوں نے شعور و آگہی کی شمع جلا کر جوانوں کو رب کی رضا سے جوڑنے کے لیے جس قافلے کی بنیاد رکھی تھی آج اس کا یوم تاسیس ہے۔ ہاں اسی قافلے کا یوم تاسیس جسے ہم اپنی محسن جمعیت کے نام سے پکارتے ہیں۔ جس نے ہم جیسے کئیوں کو تھام کر اس روشن رستے پر چلنا سکھایا۔ اذہان و قلوب کے نہا خانوں میں فکر، شعور و آگہی کے دیے جلائے۔ سیدی کردار کے حوالوں کے امین اس قافلے کی ہوا نہ لگتی تو نجانے کتنے ہم عصر ساتھیوں کی طرح ہم بھی حوادثِ زمانہ کی نذر ہو جاتے۔
آج ماضی کے مقبول نظریات دنیا میں بکھرے پڑے ہیں، ان کی اپنی کوکھ سے کئی شکلیں سامنے آ گئی ہیں، ان کے بلنگ و بانگ نعرے ہوائوں میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ سرخ سویرے کے پیروکاراور ان کے دانشور آج مخالف نظریہ “سرمایہ دارانہ نظام” کے مغلوب اور اس کے دفاع میں مصروف ہیں۔لیکن جمعیت نے بدلتے حالات کے باوجود اپنی اَساس اور فِکر کو حوادثِ زمانہ کی نذر نہ ہونے دیا۔ یہ اس نظریے کے حق ہونے کی روشن دلیل اور اس کے حامیوں پر رب کی رحمتوں کا ہی مظہر ہے۔ جمعیت نے جہاں جوانوں کو نسلی ، لسانی ، علاقائی ، گروہی تعصبات اور نیشنل ازم ، سیکولر ازم، سوشلزم جیسے باطل نظریات سے بچایا وہیں ان کی نظریاتی تطہیر اور پختگی کے ساتھ کردار سازی کا مشن آج بھی جاری ہے۔ آج جہاں دلیل، تحقیق، فکر اور شعور کی کمی ہوتی جا رہی اور جدیدیت انسان سے یہ سارے گر لے کر بدلے میں سہل پسندی تھما رہی ہے وہیںجمعیت جدیدیت کو ساتھ لیے جوانوں کے قلوب و اذہان میں فکر و شعور کے دریچے کھول رہی ہے۔ 75برس میں جمعیت نے بے مثال تربیت و اصلاح کے نظام کے ذریعے لاکھوں جوانیوں کو تراش کر گوہرِنایاب بنایا۔آج جہاں اختلاف کرنا دشمنی اور دلیل کے بدلے گالی کا رواج پروان چڑھایا جا رہا ہے وہیں جمعیت نے جوانوں کو اختلاف کرنا اور اختلاف سننا سکھایا، دلیل اور تحقیق کی بنیاد پر رائے قائم کرنا سکھائی، بولنا سکھایا، دوسرے کی رائے کو احترام دینا سکھایا، دلیل اور منطق سے بات سمجھانا سکھائی، وقت اور حالات کے چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے مقابلہ کرنے کی صلاحیتیں اُبھاریں، معاشرے کے بہترین فرد کے یہ سارے گُر تھما کر جوانوں کو قرآن سے شعوری اور فکری انداز میں جڑنا سکھایا، دائیں اور بائیں بھٹکتے نظریات کی نذر ہوتے جوانوں کی فکر اور شعور کی پرکھیں سیدھی کیں، حالات کی رو میں بہتے جوانوں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا کر ناصرف معاشرے کا مفید شہری بنایا بلکہ کئی ان گنت ستارے مختلف شعبوں میں نامور شخصیات کی صورت ملکی و بین الاقوامی افق پر چمک رہے ہیں۔ وہ جہاں سرخ سویرے، نیلے پیلے رنگوں کی باتیں تھیں، مادہ پرستی میں معاشرے کو گرفتار کرنے کی جنگ جاری تھی اور ان سب نظریات کا حاصل دنیا کی کامیابی ہی اصل کامیابی تھی وہاں جمعیت نے جوانوں کو ان عارضی رنگوں اور مقاصد سے بیزار کر کے سید کے دیے گئے آفاقی نظریہ سے روشناس کرا دیا۔ 75برس میں جمعیت نے فکری، تربیتی اور اصلاح کے مراحل سے گزار کر کروڑوں ذروں کو آفتاب کیا۔
آج اپنی محسن جمعیت نے70واں سالانہ اجتماع منعقد کیاجس میں پاکستان بھر سے اس گلشن کے مہکتے پھول ارکان شریک ہوئے ۔ رب کریم سے یہی دعائیں اور التجائیں ہیں کہ
اپنی دعا افضال جمعیت
جیے ہزاروں سال جمعیت