مزید خبریں

بدعنوانی نے سیسی کو تباہ کردیا

سندھ سوشل سیکورٹی محنت کشوں کے اہم ادارے سندھ سوشل سیکورٹی کو جو مزدوروں کے نام پر آجروں سے وصول کیے جانے والے فنڈز (کنٹری بیوشن) سے چلایا جاتا ہے اور جس کو چلانے کے لیے گزشتہ 50 سالوں میں کسی ایک حکومت نے بھی آج تک ایک روپے کی گرانٹ نہیں دی ہے۔ اور یہ ادارہ سیاسی حکومتوں کی بے جا مداخلت، غیر ضروری بھرتیوں کے سبب آج مکمل تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ تمام فریق اس ادارے کی تباہی و بربادی، معاشی مسائل و ممکنہ تباہی کو سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر سمجھیں اور تسلیم کریں۔ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کا صرف گزشتہ چھ سال کا ایک تقابلی جائزہ اس کے اپنے آفیشل شائع شدہ اعداد و شمار کی روشنی میں لیا جاے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ خسارے، تنزلی تباہی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے جون 2016 میں رجسٹرڈ یونٹس (فیکٹریوں و دفاتر) کی کل تعداد 30310 تھی، اور آج ان رجسٹرڈ یونٹس کی تعداد 19 ہزار ہے یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہونے کے بجاے 10 ہزار یونٹس کم ہوچکے ہے اسی طرح سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ ورکرز کی تعداد جون 2016 میں 763,225 تھی اور آج سیسی میں رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد تقریباً 6 لاکھ ہے۔ اہم بات یہ ہے موجودہ 6 لاکھ رجسٹرڈ ورکرز کی تعداد بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔اس وقت کم از کم ماہانہ اجرت کے مطابق ایک رجسٹرڈ محنت کش کا
کنٹری بیوشن 1500 روپے اور زیادہ سے زیادہ 1800 روپے وصول کیا جارہا ہے۔ اگر سیسی کے وصول ہونے والے ایک ماہ اوسط کے کنٹری بیوشن جو تقریباً 70 کروڑ روپے ماہانہ اوسطاً بنتا ہے کو پندرہ سو روپے فی ورکر پر تقسیم کیا جاے تو یہ تعداد ساڑھے چار لاکھ ورکرز بنتی ہے۔ جب کہ اس وصول ہونے والے ماہانہ فنڈ میں فیکٹریوں، شوگر ملوں وغیرہ کے سالانہ آڈٹ کی شکل میں وصول کئے جانے والا F5 اور لیٹ پیمنٹ پر increase کی رقم بھی شامل ہوتی ہے۔دوسری جانب 35 افسران اور چند ایمبولینس گاڑیوں کے نام پر جو مزدوروں کو کبھی کبھار ہی ملتی ہیں کروڑوں روپے کا فنڈ مہنگی و پرتعیش گاڑیوں کی خریداری، پیٹرول و مرمت کے نام پر خرچ کیا جارہا ہے۔اسی طرح بقول موجودہ سیسی انتظامیہ کے ہمیں اس وقت ہزاروں ملازمین بمعہ ڈاکٹرز و پیرامیڈیکل اسٹاف کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سیسی میں سینکڑوں سرکاری چوکیدار ملازمت ہونے کے باوجود، جن کی کوئی اسامی اس وقت خالی نہیں ہے۔ یہ ادارہ سیکورٹی گارڈ کے نام پر من پسند کمپنیوں کو سینکڑوں سیکورٹی گارڈ کے نام پر کروڑوں روپے ماہانہ کی ادائیگی کررہا ہے۔ اگر ادارے کی موجودہ انتظامیہ اپنی خواہش و پروگرام کے مطابق نئی بھرتیاں کرلیتی ہے۔ تو ان نئے ملازمین اور بڑھتی ہوے پینشن کے اخراجات کے بعد شاید آئندہ آنے والے سالوں میں اس ادارے کے پاس، وقت پر اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے بھی موجود نہیں ہوں گے۔سندھ سوشل سیکورٹی میں کرپشن کا یہ حال ہے کہ 20 سے زائد افسران نیب کے مختلف کیسوں میں سپریم کورٹ و ہائی کورٹ سے ضمانت پر ہیں۔ اور اس کے باوجود سیسی کی انتہائی اہم پوسٹوں پر بھی موجود ہیں۔ صرف نئے سال کے ماہ جنوری میں محکمہ انٹی کرپش سندھ نے کرپشن کی شکایت پر کراچی، حیدرآباد و سکھر میں چیف سیکرٹری سندھ کی باقاعدہ اجازت کے بعد 9 ایف آئی آر درج کر کے افسران کو گرفتار کیا ہے۔ساتھ ہی اربوں روپے کی کرپشن کی کئی اہم انکوائریاں اس وقت موجودہ افسران کے خلاف جاری ہیں۔ اگر اس وقت SESSI کی ری آرگنائزیشن اور ری اسٹرکچرنگ نہیں کی گئی تو کچھ عرصہ بعد شاید ادارے کے پاس اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں دینے مزدوروں کے علاج و معالجہ کے لیے بھی فنڈ موجود نہ ہوگا۔سندھ سوشل سیکورٹی کی موجودہ تباہی کی وجوہات جاننے کے لیے اعلیٰ سطحی انکوائری کرانے کی ضرورت ہے۔