مزید خبریں

نصرتِ دین اور خواتین

سیدنا طْلَیبؓ کو جب اسلام کی دولت نصیب ہوئی تو وہ اپنی والدہ اروی بنت عبدالمطلب کے پاس گئے، جو پیارے نبیؐ کی پھوپھی تھیں۔ان سے کہا: امی جان میں نے محمد کی پیروی کرلی ہے اور اللہ رب العالمین پر ایمان لے آیا ہوں۔ ماں نے کہا: وہ تمھارے ماموں زاد بھائی ہیں، واقعی وہ تمھارے سہارے اور پشت پناہی کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ بخدا! اگر ہمارے اندر مردوں جیسی قدرت و طاقت ہوتی تو ہم اس کی پیروی بھی کرتے اور اس کا دفاع بھی کرتے۔ تب بیٹے نے کہا: امی جان اسلام قبول کرنے اور نبی کی پیروی کرنے میں اب آپ کے سامنے کیا رکاوٹ ہے، اب تو آپ کے بھائی حمزہؓ بھی اسلام لاچکے ہیں؟ انھوں نے کہا: ذرا انتظار کرکے دیکھ لوں، میری بہنیں کیا کرتی ہیں، پھر میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گی۔ بیٹے نے کہا: ماں، میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، آپ چلیں، انھیں سلام کریں، ان کی تصدیق کریں اور اللہ کے تنہا معبود ہونے کی گواہی دیں۔ انھوں نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ سیدہ ارویؓ اسلام لانے کے بعد اپنی زبان سے نبیؐ کو تقویت پہنچانے میں لگ گئیں۔ وہ اپنے بیٹے کی بھی ہمت بڑھاتیں اور پیارے نبیؐ کی نصرت وخدمت میں سرگرم رہنے پر ابھارتیں۔ (مستدرک حاکم)
عقبہ بن ابی معیط اسلام کا سخت دشمن تھا، اللہ کے رسولؐ کو ہر طرح سے تنگ کرتا تھا۔ ایک دن اس کی شرارت پر حضرت طْلَیبؓ نے اس کی خبر لے لی، اس نے سیدہ ارویؓ کے پاس جاکر شکایت کی اور کہا: دیکھو یہ تمھارا بیٹا محمد کی حمایت کرتا ہے، اسے سمجھالو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ عظیم ماں نے اپنے بیٹے کی حوصلہ شکنی نہیں کی اور عقبہ سے کہا: محمدؐ کی حمایت ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا، ہمارے مال اور ہماری جانیں ان کے لیے فدا ہیں۔ (الکامل فی التاریخ)
سیدہ ارویؓ نے پہلے تو سماج کی نگاہ سے دیکھا اور سوچا کہ عورت ذات اتنا بڑا کام نہیں کرسکتی ہے۔ پھر خاندان کے دائرے میں قید ہوکر سوچا کہ سب بہنیں جو کریں گی وہی وہ بھی کریں گی۔ لیکن ایمان کی قوت سے سرشار بیٹے کے ہمت دلانے پر نہ صرف یہ کہ اسلام میں داخل ہوگئیں، بلکہ اس راز سے بھی آشنا ہوئیں کہ ایک تنہا عورت بھی باطل قوتوں کے علی الرغم حق کی تائید اور دینِ حق کا دفاع کرسکتی ہے۔
مضبوط قوت ارادی کی روشن مثال
باپ اور بھائی اسلام کے سخت دشمن، اس کے باوجود عقبہ کی بیٹی ام کلثومؓ نے اسلام قبول کرلیا، اور یہی نہیں بلکہ سب کچھ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کا ارادہ بھی کرلیا۔ اور جب کوئی رفاقت کے لیے نہیں ملا تو تنہا ہی نکل پڑیں۔ راستے میں قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ملا۔ اس قبیلے سے اللہ کے رسولؐ کا دوستی کا معاہدہ تھا۔ اس نے پوچھا کدھر کا ارادہ ہے؟ انھوں نے بتایا کہ میں اللہ کے رسولؐ کے پاس جانا چاہتی ہوں لیکن مجھے راستہ معلوم نہیں ہے۔ اس نے کہا میں آپ کو مدینہ پہنچادوں گا۔ وہ ایک اونٹ لے آیا، انھیں بٹھایا اور اسے لے کر مدینے لے آیا۔ سیدہ ام کلثومؓ کہتی ہیں وہ بہترین ساتھی تھا، اللہ اسے جزائے خیر دے۔ وہ آکر مدینہ میں رکیں اور اللہ کے رسولؐ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے دین کو بچانے کے لیے آپ کے پاس بھاگ کر آئی ہوں، مجھے پناہ دیجیے، اور ان کی طرف واپس نہ لوٹائیے، ورنہ وہ مجھے دین بدلنے پر مجبور کریں گے اور بہت ستائیں گے اور میرے اندر تعذیب برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔ اللہ کو ان کی یہ ادا بہت پسند آئی اور ان کے حق میں قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئیں۔ بعد میں ان کے دو بھائی آئے اور معاہدے کے تحت انھیں حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو اللہ کے رسولؐ نے ان کو حوالے کرنے سے منع کردیا اور کہا کہ مومن عورتوں پر یہ معاہدہ منطبق نہیں ہوتا ہے۔ (صفۃ الصفوۃ)
اپنے ذاتی فیصلے سے اسلام قبول کرنا، گھر کے تمام مردوں کی ناراضی اور دشمنی کو خاطر میں نہ لانا، وطن سے ہجرت کرجانا، اور وہ بھی تنہا ہی نکل پڑنا اور یہ سب کچھ اس زمانے اور علاقے میں کرنا جہاں خطرات بہت زیادہ اور عورت نہایت مجبور سمجھی جاتی تھی، ناقابلِ یقین باتیں لگتی ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے عورت کے اندر یہ قوت ارادی ودیعت کی ہے اور ایمان اسے بیدار کردیتا ہے۔