مزید خبریں

خون کے عطیے سے فرد نہیں انسانیت کو بچایا جاتا ہے، مقررین

حیدرآباد (اسٹافف رپورٹر)سول اسپتال حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو او پی ڈی کے انچارج ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے 14جون کو دن بھر میں منائے جانے والے عطیہ خون کے عالمی دن کے حوالے سے کہا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن لوگوں میں خون دینے کا شعور نہ ہونے کے سبب صرف 12 سے 15 لاکھ بوتلیں خون کی جمع ہوتی ہیں جبکہ قدرتی طور پر ہر انسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے اور 18 سے 60 سال کی عمر کے ایک تندرست شخص جس کا وزن 110 پونڈ سے زیادہ ہو وہ ہر تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 14 جون کو ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے منایا جاتا ہے اور یہ دن منانے کا بنیادی مقصد عوام میں خون عطیہ کرنے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ انسانی زندگیوں کو بچایا جائے۔انہوں نے بتا یاکہ کارل لینڈ سٹینر جنہوں نے پہلی بار خون کے گروپس دریافت کیے اور نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے اور ان کی اس عظیم خدمت پر خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت نے 14جون کا انتخاب کیا۔ خون کا بنیادی کام جسم کو آکسیجن کی فراہمی اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا جسم سے اخراج ہے، عام طور پر ایک صحت مند فرد کے جسم میں پانچ سے 6 لیٹر خون ہوتا ہے جبکہ خون کے چار بڑے گروپس ہیں جبکہ رہسس سسٹم (Rhesus System) کی بنیاد پر مزید یہ خون کے گروپس مثبت اور منفی گروپس میں تقسیم ہو جاتے ہیں،دنیا بھر میں 93 فیصد افراد مثبت بلڈ گروپس سے تعلق رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انتقالِ خون کے دوران ان باتوں کا ضرور خیال رکھا جائے کہ مریض کو اسی کے گروپ کا خون مہیا کیا جائے، ہنگامی صورتحال کے پیش نظر دوسرے گروپ کا خون بھی دیا جا سکتا ہے، منفی گروپ کے مریض کو کبھی مثبت گروپ کا خون نہیں دینا چاہیے البتہ مثبت گروپ کے مریض منفی گروپ کا خون وصول کر سکتے ہیں، او گروپ کے حامل افراد ہر گروپ سے تعلق رکھنے والوں کو خون کا عطیہ دے سکتے ہیں اسی وجہ سے او گروپ کے حامل افراد کو یونیورسل ڈونر بھی کہتے ہیں مگر خود انہیں او گروپ کے علاوہ کوئی اور خون نہیں دیا جا سکتا۔اسی طرح اے بی گروپ کے حامل مریضوں کو کسی بھی گروپ کا خون دیا جا سکتا ہے اسی وجہ سے ان کو یونیورسل ریسیپینئٹ بھی کہتے ہیں لیکن وہ خود سوائے اے بی گروپ کے کسی اور گروپ کے مریضوں کو خون کا عطیہ نہیں دے سکتے جبکہ اے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد بی گروپ کو عطیہ دے سکتے ہیں اورنہ ہی ان سے وصول کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر ایم عارف نے بتا یاکہ 1667ء میں پہلی بار انسان کو خون فراہم کیا گیااور فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ نے ایک بھیڑ کے بچے کا خون انسانی جسم میں داخل کیا تھا بعد ازاں انسانی خون مریضوں کو فراہم کیا جانے لگااورکسی بھی فرد کو خون اس وقت دیا جاتا ہے جب جسم میں کسی مرض یا حادثے کی وجہ سے خون کی شدید کمی واقع ہو جائے تاہم ہیپاٹائٹس کے مریض، ایڈز، اینیمیا دل اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا افراد، جنسی امراض منشیات کے عادی افراد خون نہیں دے سکتے ہیں جبکہ خون کا عطیہ کرنے میں کوئی شرعی عذر نہیں ہے خون کا عطیہ ایک عظیم نیکی کا کام ہے جس نے کسی ایک فرد کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔