مزید خبریں

سولر ٹیکنالوجی میں پاکستانی سائنسدان کے دو ورلڈ ریکارڈ مستقبل میں شمسی توانائی کی اہمیت

پاکستانی محقق یاسر صدیقی نے کورین سائنسدانوں کے تعاون سے روایتی سولر سیل میں تبدیلی کرتے ہوئے دو ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی کمی پوری کرنے میں یہ ٹیکنالوجی معاون ثابت ہو سکتی ہے لیکن کچھ رکاوٹیں بھی ہیں۔
سائنسدان اور محققین سولر ٹیکنالوجی میں جدت کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یاسر صدیقی نے کوریائی سائنسدانوں کی ٹیم کے ساتھ تحقیق کرتے ہوئے ایسے سولر سیل ڈیزائن کیے، جنہوں نے افادیت میں دو نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر کی ریکارڈ ساز تحقیق کیا ہے؟
ڈاکٹر یاسر صدیقی نے بتایا کہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ سولر سیل کی ایفی شینسی یا افادیت کیا ہوتی ہے؟ سورج کی جو روشنی سولر سیل پر پڑتی ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر وہ واپس پلٹ جاتی اور اس کا بہت تھوڑا حصہ توانائی میں ڈھل پاتا ہے۔ ڈاکٹر یاسر نے سلیکون سے بنے ایک روایتی سولر سیل کی تیاری کے دوران اس میں ایک خاص محلول شامل کیا، جس سے سیل کی ایفی شینسی یا افادیت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ بعد ازاں جب اِنڈیئم سلفو سیلینائیڈ کے اوپر پروسکائٹ کی پتلی تہہ چڑھائی گئی تو سیل کی ایفی شینسی مزید بڑھ گئی اور اس نے بھی افادیت میں ایک نیا ریکارڈ بنایا۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق روایتی سلیکون سولر سیل کی افادیت عموما 15 سے 20 فیصد ہوتی ہے جبکہ مرتکز آئینوں والے سولر سیل کی افادیت 41 فیصد تک ہو سکتی ہے مگراس میں سورج کی روشنی کو ایک مقام پر اکھٹا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر یاسر کی ٹیم کے تیار کردہ شمسی سیل ٹینڈم یا سینڈوچ قسم کے ہیں، جو اب تک تیار کردہ سب سے مؤثر سولر سیل سمجھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر کون ہیں؟
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یاسر صدیقی اس وقت جنوبی کوریا کی سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف انرجی ریسرچ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنے سپر وائزر ڈاکٹر سیجن آہن کی نگرانی میں ان شمسی سیلز کے ڈیزائن اور تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں شمسی توانائی کتنی اہم ہے؟
امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی کی ایک رپورٹ کے مطابق بغیر کسی رکاوٹ کے روزانہ تقریبا 1 لاکھ 73 ہزار ٹیرا واٹ سورج کی توانائی زمین سے ٹکراتی ہے، جو دنیا بھر میں زیر استعمال توانائی کی مقدار سے 10 گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے پاکستان دنیا بھر میں تیسرا موزوں ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سال میں 315 دن دھوپ چمکتی ہے۔ مگر پاکستان شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی 44 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار کا 49 فیصد حصہ گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔ لہذا اگر گھروں میں سولر پینلز کے استعمال کو بڑھایا جائے یا نئی تعمیر ہونے والی کمرشل عمارتوں کو مخصوص ڈیزائن سے تیار کر کے شمسی توانائی پر آپریٹ کیا جائے تو توانائی کے بحران میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کو لگام ڈالنے میں بھی مدد ملے گی۔