مزید خبریں

ایمان اور انقلاب

آیئے ہم جس چیز کو ایمان کہتے ہیں، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ راہِ حق میں ایمان اور انقلاب ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ ایک ہی سکّے کے دو رْخ ہیں۔ ایک ہی حلاوت، مزہ اور شیرینی لیے ہوئے اور اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سمت پہ لوگوں کو لے جانے والے الفاظ ہیں۔ ہم جس چیز کو چھوٹا سا کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں، یا اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ کہتے ہیں، اور اس موقع پر ہم اکثر سنی اَن سنی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں… حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور انقلاب سبھی کچھ اس میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ عرض ہے۔

سیدنا ابوذر غفاریؓ پانچویں صحابی ہیں کہ جو ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد ان سے یہ بات کہی گئی کہ ابھی اہلِ ایمان کی قوت بہت تھوڑی ہے، اہلِ ایمان کی کْل جمع پونجی بس یہی دوچار افراد ہیں، اس لیے ذرا احتیاط سے اور ذرا سنبھل کر چلنا ہے۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ کے دل کے اندر ایمان کی جو چنگاری پہنچی تھی، وہ شعلہ جوالہ بن کر لپکی، ضبط کا یارا نہ رہا۔ سیدھے حرمِ کعبہ میں پہنچتے ہیں جہاں کفار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے، ان کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں اور پکار اْٹھتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ۔ کفارِ مکہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی یہ مجال اور یہ جرأت کہ ہماری ہی مجلس میں کھڑے ہوکر یہ نعرۂ دیوانہ و مستانہ بلند کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، انھیں زد و کوب کرتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تاآنکہ سیدنا ابوذر غفاریؓ بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ اسی حال میں وہاں سے لے جائے جاتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں؟ کس حال میں ہوں؟

بتایا جاتا ہے کہ تم اس حال میں یوں پہنچے ہو کہ تم نے وہ نعرۂ مستانہ کفار کے بیچ جاکر بلند کیا تھا، تو زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا! اس جرم کے پاداش میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہ جرم تو کل پھر سرزد ہوگا۔ تم کہتے ہو کہ مارا پیٹا گیا ہوں، حال سے بے حال ہوا ہوں، مجھ سے پوچھو، ایمان کی جو حلاوت، لطف و مزا اور اس کی شیرینی مجھے ملی ہے، کل پھر اپنے کیف و سْرور کو دوبالا کروں گا… یہ کیا جذبہ ہے، یہ جذبۂ لذت آشنائی ہے۔

ہم نے بھی یہ کلمہ سیکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوگا، مگر کب یہ عشق کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب یہ جنوں کا سودا ذہنوں کے اندر سماتا ہے، کب اس کے نتیجے میں نکلنے اور ہلکے اور بوجھل ہر حال میں نکلنے کے لیے انسان آمادہ اور برسرِ پیکار ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے… کیا اس پہلو پر بھی کبھی آپ نے غور کیا!

اس نعرے کے اندر انقلاب اور ایمان دو علیحدہ علیحدہ مختلف چیزوں کے نام نہیں بلکہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ اس کلمے نے تاریخ کی عظیم ترین حقیقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مکمل اور اعلیٰ ترین انقلاب کی حیثیت سے منوایا ہے۔ ایسا انقلاب کہ جو انسان کے تمام باطنی اور ظاہری رویوں کو بدل دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ایمانی انقلاب پنہاں اور سرایت کرتا ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور تمام ترجیحات کو صحیح رْخ دیتا ہے۔

اس مقصد کے لیے یہ انسانوں کو اْٹھاتا، کھڑا کرتا اور جدوجہد کا پیکر بناتا ہے۔ انسان کا معاملہ مجھ سے اور آپ سے بھلا کہاں ڈھکا چھپا ہے۔ انسان بالکل ٹھیک چل رہا ہوتا ہے اور لوگ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس کامیابی نے اس کے قدم چوم لیے کہ اچانک وہ گر پڑتا ہے، اور ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پھر یہی انسان ہے جو ہمت پکڑتا ہے، اْٹھتا ہے اور پھر منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گرے گا وہی جو چلے گا، جو چلنے سے توبہ کرلے وہ کہاں گرے گا۔ جو کنارے پر بیٹھ کر محض نظارہ دیکھے گا، وہ تو صرف مشورے دے گا اور کچھ بھی نہ کرسکے گا۔ لہٰذا اس راہ پر کچھ ڈوبنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا، تبھی تو تیرنا آئے گا۔ گرنے کو انگیز کرنا ہوگا تبھی تو چلنا آئے گا۔ منزل کی طرف مسلسل دیکھنا ہوگا تاکہ نشاناتِ منزل جب جب آئیں تب تب ایمان کے اندر اضافہ ہو، تب اللہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہوا محسوس ہو کہ ہاں، اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر یہی انسان پوری قوت سے پکار اْٹھے گا:

’میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد بیان کرتا ہوں‘۔ (متفق علیہ) اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور عظمت والی ہے۔
’نہیں ہے کوئی معبود مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا‘۔ (انبیاء: 18)
وہ اپنے ہاتھوں اپنے اْوپر کیے ہوئے ظلم کو بھی یاد کرتا ہے۔ معافی اور درگزر کا در تو کبھی بند نہیں ہوتا۔ توبہ کرنا، گرنا اْٹھنا، اس کی طرف چلنا، اس کی طرف بڑھنے کے لیے عزم و ارادہ کرنا یہی مطلوب ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جگانے، اْٹھانے، آگے بڑھانے کے لیے اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے ہمکنار کرنے کے لیے ایمان اور انقلاب دونوں ہم آہنگی کا تقاضا کرتے ہیں۔