مزید خبریں

قرآن اور خاندان

مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اْن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اْن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔ (النساء: 34)

مرد عورتوں پر قوام ہیں
’’قوام یا قیمّ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کر نے کا ذمے دار ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص 349)
’مرد قوام ہے‘، بڑی بحث کا عنوان ہے۔ جدید ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور حقوق نسواں اور مساوات مرد وزن کی علَم بردار خواتین کو تو یہ بالکل ہضم نہیں ہوتا۔ ہاں، ادارے کا سربراہ ہونا، گوارا ہے، مرد حاکم ہے تو بالکل گوارا نہیں۔ اس قسم کی عورتوں کے گروپ یا میٹنگ میں اس طرح کا بیان دینا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ پورا نظام معاشرت سمجھا کر، گھر میں تقسیمِ کار کی بات کریں اور پھر اس نکتے پر آئیں تو سننے پر کچھ آمادگی ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کی فضیلت کی جو وجوہ بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وجہ مال خرچ کرنا ہے۔ اس پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جو مرد کماتے نہیں ہیں، یا بیویاں کماتی ہیں اور کمائی شوہر سے کئی گنا زیادہ ہے، تو اب مرد قوام تو نہیں رہے گا اور مال خرچ کرنے کی وجہ ساقط ہوگئی۔ ویسے تو مہر اور نان و نفقہ بھلے عورت مال دار ہو، مرد کی ہی ذمے داری ہے۔ خیال رہے کہ مرد کی فضیلت کی دوسری وجہ ہے: ’’اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘۔ لہٰذا اگر ایک وجہ نہ بھی رہے تو دوسری تو موجود ہے۔

’’یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اْردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبرگیری کے تحت رہنا چاہیے۔
حدیث میں آیا ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمھارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمھاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمھارے پیچھے تمھارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے‘‘۔

یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر بیان کرتی ہے، مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم ایک اور اقدام اپنے خالق کی اطاعت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے، یا خدا کے عائدکیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص 349)

’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ‘‘… اس کا ’’یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کرڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے۔ اب رہا ان پر عمل درآمد، تو بہرحال اس میں قصور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو، وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے۔

نبیؐ نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے، بادلِ نخواستہ دی ہے، اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیردرست ہی نہیں ہوتیں۔ ایسی حالت میں نبیؐ نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے‘‘۔ (ایضاً، ص 350)
غیب میں حفاظت کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ ایک تو شوہر کے مال کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر دودھ اْبلتا رہے، لائٹس جلتی رہیں، پانی بہتا رہے وغیرہ، یہ اشیا کا ضیاع ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح ہر فنکشن کے لیے نیا بڑھیا جوڑا اور جیولری، اپنی استطاعت سے زیادہ کی خریدی جائے اور ضروری مدات کا بجٹ کم کر دیا جائے، تو یہ بھی مال کی حفاظت کے منافی اقدام ہیں۔

دوسری اور بڑی اہم حفاظت ہے بیوی کی عصمت جو شوہر کی عزت ہے۔ وہ اس کی غیرموجودگی میں اپنی حفاظت کر کے گویا اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ غیر مردوں، نامحرم رشتے داروں سے بے تکلفی، ان کو بیڈ روم میں بٹھانا، گھر میں مرد نہ ہو تو اندر بلانا، مہمان بنانا، خاطر تواضع کرنا وغیرہ اسی ذیل کی تفصیلات ہیں۔ تیسرے شوہر کے راز، کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں، نجی، کاروباری، خاندانی امور سے متعلق وہ فاش کرنے سے بھی تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔

پھر جن عورتوں سے سرکشی کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کسی عورت کے رویے سے ہی سرکشی، ضد اور ہٹ دھرمی ظاہر ہوتی ہو۔ شوہر کی بات مان کر نہیں دینی، ہر کام میں اپنی منوانی ہے۔ ذرا کمی کوتاہی ہو جائے تو بے جا واویلا کر کے شوہر کی کردار کشی کرنی، بچوں کو بھی نافرمان بنانے کے لیے ان کی ذہن سازی کرنا جیسے مسائل کا سامنا ہو۔ لہٰذا وہ امور جو گھر کو فساد کی طرف لے کر جانے والے ہوں، ان سے روکنے کے لیے قوّام ہونے کی وجہ سے اللہ نے مرد کو تادیبی اختیارات دیے ہیں۔ مقصود مرد کی اَنا اور مَیں کی تسکین نہیں، گھر کے نظام کی اصلاح ہے۔ وہ تین مراحل اور درجات ہیں۔ ان کی ترتیب یا قصور کا لحاظ رکھے بغیر، ان کو جواز بنانا اور فائدہ اٹھانا دین کا منشا اور مطلوب نہیں ہے۔

معاشرتی تعلیمات
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اْس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حْسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتے دار سے، اجنبی ہمسایے سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اْن لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ (النساء: 36)

پہلا حق اللہ کی بندگی کا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اس کا کوئی شریک نہیں۔ متصلًا بعد والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم ہے اور پھر رشتے داروں کا دائر ہ آگیا۔ معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو بھی حقیر نہ جانو بلکہ ان کے ساتھ بھی، خواہ یتیم ہو یا مسکین، اچھا سلوک کرو۔ پڑوسی کا بڑا مقام ہے اور اس میں بھی درجات ہیں۔ پڑوسی رشتے دار اور مسلمان ہے تو بڑا درجہ، پڑوسی مسلمان ہے، رشتے دار نہیں ہے تو درمیانہ درجہ، پڑوسی نہ رشتے دار، نہ مسلمان مگر پڑوسی ہے تو بھی اس کے تین درجو ں تک نہ سہی ایک درجے کے حقوق تو ہیں۔ اس کے علاوہ ساتھی، جو تھوڑے سے وقت کے لیے ساتھ رہے، انتظار گاہ میں بیٹھا ہو، گاڑی میں آپ کے ساتھ بیٹھ جائے، خریداری کرتے ہوئے وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ بھی یو ں معاملہ کرو کہ وہ اچھا ہی یاد کرے۔ مسافر کا بھی بڑا احترام ہے، اس کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی ہدایت ہے۔ پھر جو بہت کمزور اور بے بس، معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے، ان کے ساتھ بھی برابری نہیں احسان کا معاملہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ سارے رویے ان لوگوں کے ہیں جو متکبر نہیں ہوتے، جو اپنے آپ کو برتر نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تلقین کی ہے۔ ان سب پر عمل کر کے ہمیں معا شرے کی اسلامی خطوط پر تعمیر کرنی ہے۔