مزید خبریں

نواز شریف نے ڈاکا زدہ انتخابات کے نتائج قبول کر کے بوٹ کو عزت دی

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) نواز شریف نے ڈاکا زدہ انتخابات کے نتائج قبول کر کے بوٹ کو عزت دی‘ 7 اکتوبر 1958ء کے مارشل لا کے بعد سے کوئی انتخاب بھی آزادانہ و منصفانہ نہیں ہوا‘ اشرافیہ اقتدارلا لچ دیتی ہے تو سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں‘ ملک مزید بحران کا شکار ہو گیا‘25 کروڑ عوام کی رائے کو بلڈوز کردیا گیا‘ برسراقتدار گروہ بھی زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، پاکستان استقلال پارٹی کے مرکزی صدر سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ اور ممتاز سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نویس سلمان عابد نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا میاں نواز شریف نے ڈاکا زدہ انتخابات کے نتائج قبول کر کے ووٹ کو عزت دی ہے یا بوٹ کو؟‘‘ مولانا محمد جاوید قصوری کا موقف تھا کہ ن لیگ نے اپنے سیاسی بیانیے میں اتنا بڑا یو ٹرن لیا ہے کہ ووٹ کو عزت دیتے دیتے وہ بوٹ کو عزت دینے تک پہنچ گئی ہے جس کے نتیجے میں 8 فروری کے انتخابات کے بعد مصنوعی اور جعلی مینڈیٹ کے ذریعے بننے والی حکومت کے دور میں ملک بحران سے نکلنے کے بجائے مزید بحران کا شکار ہو گیا ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری ن لیگ اور میاں نواز شریف پر عاید ہوتی ہے، جنہوں نے 25 کروڑ عوام کی رائے کو بلڈوز کر کے اقتدار تک رسائی تو حاصل کر لی ہے مگر ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے‘ ن لیگ اور اس کی قیادت نے ماضی کے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، تمام اصولوں، ضابطوں، عوامی رائے اور ہر چیز کو اشرافیہ کی مدد سے بلڈوز کر دیا گیا ہے جس کے منفی اثرات سے برسراقتدار گروہ بھی زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ نے رائے دی کہ 7 اکتوبر 1958ء کی فوجی مداخلت کے بعد سے ملک میں کوئی انتخاب بھی آزادانہ و منصفانہ نہیں ہوا، اشرافیہ نے اپنی ضروریات کے مطابق ’’مثبت نتائج‘‘ کے حصول کی خاطر ہمیشہ انتخابی عمل میں مداخلت کی ہے، تمام حکومتیں ان کی مرضی سے بنیں‘ بعد میں جھگڑے اور اختلافات پیدا ہوئے، اس دفعہ بھی یہی ہوا ہے، جب اقتدار تک پہنچنے کا لالچ دیا جاتا ہے تو سودے بازی کرلی جاتی ہے‘ میاں نواز شریف لندن میں تھے تو میں نے ان سے کہا کہ پاکستان آ کر کل جماعتی کانفرنس بلائیں، کچھ بنیادی معاملات اور اصول طے کر لیں تاکہ ملک کو استحکام حاصل ہو سکے مگر اس وقت عمران خاں راضی نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اصل طاقتور ہی سے بات کریں گے یوں تالی سب ہاتھوں سے مل کر ہی بجتی رہی ‘ اب بھی ضرورت ہے سب مل بیٹھ کر بات کریں تاکہ ملک میں معاشی استحکام اور معاشرتی حالات میں بہتری کی راہ نکل سکے ورنہ اشرافیہ تو طویل عرصے سے اپنے مقاصد کی خاطر یہی کھیل کھیل رہی ہے‘ کبھی بھٹو، کبھی نواز شریف اور کبھی عمران خان کو آگے لاتی ہے اور جب ضرورت پوری ہو جائے یا وہ آنکھیں دکھانے لگیں تو نیا مہرہ تیار کر لیا جاتا ہے۔ سلمان عابد نے کہا کہ ن لیگ اور شریف خاندان اشرافیہ کے ساتھ باقاعدہ سودے بازی کے ذریعے اقتدار میں واپس آیا ہے‘ اشرافیہ کو عمران خان کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی سہارے کی ضرورت تھی، شریف خاندان نے ووٹ کو عزت دینے کا بیانہ پس پشت ڈال کر سودا کر لیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور ہے اور اشرافیہ کے ذریعے ہی اقتدار تک راستہ نکل سکتا ہے‘ میاں نواز شریف لندن سے واپس تو اپنے اقتدار کے لیے آئے تھے جو انہیں نہیں مل سکا مگر خاندان کے لیے بہت کچھ حاصل کر لیا تاہم مینڈیٹ کے بارے میں چونکہ سب کو علم ہے کہ یہ جعلی ہے اس لیے مسلسل اخلاقی و سیاسی دبائو کے شکار رہیں گے‘ اشرافیہ چاہتی ہے کہ نواز شریف حکومتی معاملات میں کم سے کم مداخلت کریں، پاکستان میں در اصل اقتدار کا سارا ماڈل چونکہ اشرافیہ ہی کا تیار کردہ ہوتا ہے اس لیے سب ہی ووٹ کے بجائے بوٹ کو عزت دیتے ہیں‘ ایک اگر اپنے لیے راستہ نکالتا ہے تو دوسرا سہولت کار بن جاتا ہے کل عمران خان سہولت کاری کر رہے تھے تو آج ن لیگ اور پیپلز پارٹی یہی کردار ادا کر رہی ہیں، شاید کبھی سیاستدانوں کو احساس ہو کہ کھیل بالکل ہاتھ سے نکل گیا ہے تو سیاست اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے اکٹھے بیٹھنے پر تیار ہو جائیں۔