مزید خبریں

یتیم بچوں کی کفالت ہمارافرض اورقرض

بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سیمحروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں، بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ والدین کا سایہ یقیناً ہر بچے کے لیے لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ کوئی بھی بچہ زندگی کے نشیب و فراز میں والدین کے سہارے کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا، کیونکہ18 سال کی عمر تک ہر بچے کو تعلیم، صحت اور خوراک سمیت تمام سماجی اور ذہنی ضروریات پوری کرنے کیلئے والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ زندگی میں ا?گے بڑھنے کیلئے کسی بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہی اسکے والدین کا سہارا ہے۔ یونیسیف کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیابھر میں روزانہ 10 ہزار سے زائد بچوں سیان کے والدین کا سایہ چھن جاتا ہے۔دنیا بھرمیں اس وقت 17 کروڑ سیزائدیتیم بچے ہیں، جن میں سے اڑھائی کروڑ بچوں کے والد اور والدہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یہ اعداد وشمار مختلف عالمی اداروں کے تسلیم اور تصدیق شدہ ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں یتیم بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان یتیم بچوں میں سے اکثریت غریب افریقی اور ایشائی ممالک میں ہے۔ جنگ، بدامنی اور قدرتی ا?فات جہاں ممالک اور اقوام کیلئے تباہی کا پیغام لاتی ہیں، وہیں معصوم بچوں کی زندگیاں بھی ا?زمائش بنا دیتی ہیں۔

گذشتہ 2 دہائیوں کے دوران جہاں عالمی منظر نامہ تیزی سے بدلاہے، وہیں مختلف ممالک میں جنگوں، قدرتی ا?فات اور حادثات نے یتیم بچوں کی صورت میں ایک المیے کوبھی جنم دیا۔ کروڑوں یتیم بچے سر پر چھت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی ضرورت کی اشیاء￿ سے محروم ہوگئیہیں، یقیناً یہ اقوام عالم کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہیں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئیدسمبر 2013 میں ترکی کے فلاحی ادارے ا?ئی ایچ ایچ کی تجویز پر اسلامی تعاون تنظیم (او ا?ئی سی ) نے پہلی بار 15رمضان کو یوم یتامیٰ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اسی تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں یتیم بچوں کیلئے کام کرنے والے اداروں کا اجلاس ہوا، جس میں ملک میں موجود یتیم بچوں کے مسائل اور ان کے حل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، بعدازاں یہاں بھی 15رمضان المبارک کو یتیم بچوں کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کے فلاحی اداروں نے 20 مئی 2016 کو اپنے اعلامیے میں اس کا اعلان کیا۔ ا?رفن کئیر فورم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا، یتیم بچوں کیلئے کام کرنے والے ڈیڑھ درجن سے زائد ادارے اس فورم کے ممبر ہیں۔ اس فورم میں الخدمت فاؤنڈیشن، ہیلپ ان نیڈ، ہیومن اپیل، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف، قطر چیریٹی، ریڈ فاؤنڈیشن، ہیلپنگ ہینڈفار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ، وامی، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، مسلم ہینڈز، انجمن فیض الاسلام، تعمیر ملت فاؤنڈیشن، آرفنز ان نیڈ، صراط الجنت ٹرسٹ، جونیئر جناح ٹرسٹ، پینی اپیل، نارتھ امریکن مسلم فاؤنڈیشن اور فاؤنڈیشن ا?ف دی فیتھ فل شامل ہیں ، یہی نہیں بلکہ ہر وہ تنظیم یا ادارہ جو ملک میں یتیم بچوں کی کفالت یا فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہا ہے وہ ’’پاکستان ا?رفن کئیر فورم‘‘ کا حصہ بن سکتا ہے۔

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، اس ماہ مبارکہ میں نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد عبادات کیساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ بھی کرتی ہے۔ یقیناً اس ماہ کے دوران یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لئے کام کرنے والے اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہییتاکہ یہ بچے بھی معاشرے کے دیگر بچوں کی طرح اپنی زندگی میں ا?گے بڑھ سکیں۔

سوال یہ ہے کہ کفالت یتامیٰ کیوں ضروری ہے۔ کفالت یتامیٰ جہاں باعث اجر اور شفاعت رسول? کا ذریعہ ہے ، وہیں پرامن معاشرے کی تعمیر کیلئے بھی ان بچوں کی درست سمت میں رہنمائی بھی ضروری ہے۔ میری نظر میں یتیم بچہ ایک اَن گائیڈڈ میزائل کی طرح ہوتا ہے، یہ نتائج سے بے پروا ہ ایک ایٹم بم ہوتا ہے، معاشرہ جس طرح اسے ڈیل کرتا ہے، وہ اسی انداز میں معاشرے کیساتھ پیش ا?تا ہے۔ اس پر نگران نہ ہونے کے باعث غالب امکان ہے کہ وہ تباہی کے راستے پر چل پڑے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک لاکھوں یتیم بچوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا، یہ یتیم بچے جہاں خام سونا ہیں، وہیں انھیں بھرپور توجہ دے کر ان کی کفالت کرکے انہیں کندن بنایا جاسکتا ہے۔

یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرا?ن حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اْن کے اموال کی حفاظت اور اْن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اْن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔
پاکستان کے 46 لاکھ کے قریب یتیم بچے، اپنوں کی عدم توجہی اور معاشرے کی بے اعتناعی کے باعث ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں، یہ معصوم پھول بھکاری مافیا، ا?رگن مافیا اور انسانی سمگلرز کے ہاتھ چڑھ سکتے ہیں، یہی نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد بھی ایسے ہی بچوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور کسی بھی وقت انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ ا گرچہ پاکستان میں اتنی بھیانک صورتحال نہیں ہے، یتیم بچوں کے رشتہ دار اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی پرورش کرتے ہیں، غیر سرکاری ادارے ان کی مدد کو حاضر ہوتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کئی مخیر حضرات انفرادی طور پر بھی کفالت یتامیٰ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ اب بھی لاکھوں بچے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں،

ا?ج بھی مسکراتی کلیاں اپنے بچپن کی مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں، وہ پھول بن کر کھلنا چاہتی ہیں، وہ پھل بن کر معاشرے میں مٹھاس بانٹنا چاہتی ہیں۔ انہیں ضرورت ہے تو میرے اور ا?پ جیسے مالیوں کی، جو اپنے مال میں سے ان کلیوں کی ا?بیاری کریں، انہیں جی جان سے توجہ دے کر معاشرے کا مفید شہری بنائیں۔ وطن عزیز کے دھنک رنگوں میں محبتوں کے رنگ بھریں، جگنو بن کر وطن عزیز کی مانگ ستاروں سے سجا دیں۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہم اپنی استطاعت کے مطابق ان بچوں کی کفالت کریں، اگر انفرادی سطح پر ہماری استطاعت نہیں ہے تو ایسے اداروں کے دست و بازو بنیں جو اپنے گلستان پیارے پاکستان میں یتامیٰ کی کفالت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

ا?ئیے! ا?ج یوم یتامیٰ کے موقع پر ا?رفن کئیر فورم کا پیغام ہرمحب وطن، صاحب حیثیت پاکستانی تک پہنچائیں۔ ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں جہاں کوئی یتیم بچہ ورکشاپ یا ڈھابے پر نہ ہو بلکہ اس کی منزل سکول ہو، ان یتیم بچوں کو اپنی ا?غوش میں اس طرح سمیٹیں کہ کسی جرائم پیشہ گروہ کی نظریں پیارے دیس کے اس قیمتی سرمائے تک نہ پہنچیں۔ یہ 46 لاکھ یتیم بچے سگنل پر کھڑے ہوکربھیک نہ مانگیں بلکہ سکول کی اسمبلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ ا?ئیں رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں یتیم بچوں کیساتھ عہد کریں کہ یہاں انہیں بھی جینے کا، پڑھنے کا اور ا?گے بڑھنے کا پورا حق ہے اور ہم انہیں ان کا یہ حق خود دیں گے۔ ہمارا یہ عہد ہی ہمیں منزل مراد تک پہنچائے گا۔