مزید خبریں

حماس کی کامیاب مزاحمت کا رازکلمہ طیبہ اور حق کی طاقت ہے

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) سفارتی تجزیہ کاروں نے کہا کہ حماس کی کامیاب مزاحمت کا رازکلمہ طیبہ اور حق کی طاقت ہے‘ حماس کی مزاحمت اس لیے کامیاب ہے کہ اس کے پاس جان دینے کا جذبہ ہے اور کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے‘ اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے تو اِس کے حمایتی ممالک اُس کے جرم میں برابر کے شریک ہیں‘ فلسطینیوں کا تو کوئی والی وارث نہیں ہے‘ اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں، پناہ گزین کیمپ، کوئی جگہ، کوئی بھی کونہ اُن کے لیے محفوظ نہیں ہے‘ مسلم دنیا اور عالمی دنیا کے یہ جرائم ہی حماس کی طاقت کا باعث بنے ہیں۔ سفارتی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق عادل نے کہا کہ جو جذبہ حماس کے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں ہے، وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کے لیے موت کو اپنا ہتھیار بنا رہے ہیں ‘ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر مشرق
وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے‘ امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑے گی‘ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی‘ شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعے شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق سینئر نائب صدر عمران شبیر عباسی نے کہا کہ شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں‘ وہ فلسطینی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سے تھے‘ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلم رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔ 2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی پاکستان کے عوام کی فلسطینی عوام کے ساتھ محبت اور یکجہتی دیکھ کر اس بات کا پتہ چل گیا ہے کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لیے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے‘ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین کے لیے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لیے عام پاکستانی فلسطین کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حماس کی مزاحمت کے پیچھے کلمہ اور حق کی طاقت ہے جس کی پشت پر اسلام کی قوت ہے‘ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کو امریکا کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے‘ آج بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہے اور اس ظلم و ستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ ممتاز تجزیہ کار جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ عالم اسلام کو متحد کرنے اور مسلم دشمن پالیسیوں کے سدباب کے لیے حماس اس وقت میدان میں ہے‘ افسوس ناک امر یہ ہے کہ حماس مزاحمت دکھا رہی ہے اور مسلم امہ آپس میں دست وگریبان ہے‘ مشرق وسطیٰ کے 4 بڑے اور طاقتور ممالک مصر، شام، ایران اور عراق خانہ جنگی کی لپیٹ یا آپس کی جنگوں میں الجھ کر تباہ ضرور ہوئے‘ اردن، یمن، سوڈان کی عسکری، سیاسی و معاشی قوت کو بکھیر کر رکھ دیا گیا‘ یہود و نصاریٰ کی زنجیروں میں جکڑے یہ اسلامی ممالک اور ڈیڑھ ارب سے زاید مسلمان، کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں؟ ماضی کی طرح اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطینی عوام پر قیامت ڈھا دی۔ تاریخ کی بدترین بمباری نے غزوہ کو جو صرف 22,23 لاکھ آبادی کا شہر ہے‘ کھنڈرات میں تبدیل کردیا‘ ہزاروں بے گناہ و معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جن میں معصوم و ننھے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں‘ دیکھا جائے تو شہری آبادیوں جن میں اسکول،کالج اور اسپتال شامل ہیں،کو نشانہ بنانا اور انہیں ملیا میٹ کردینا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک گھنائونا جرم ہے جس کی تحت اسرائیل باقاعدہ ایک جنگی مجرم ہے جب تک حرم کی پاسبانی کے لیے مسلم ایک نہیں ہوں گے یہ مٹھی بھر یہود عربوں و اربوں مسلمانوں پر اسی طرح حاوی و بھاری رہیں گے۔ تجزیہ کار اظہر شیخ نے کہا کہ مسلم حکمران سو رہے ہیں اور اسرائیل کے جنگی ہیلی کاپٹر غزہ میں امداد کے لیے قطار میں کھڑے فلسطینیوں پر حملہ کرکے نقصان پہنچا رہے ہیں‘ حالیہ حملے میں 112 فلسطینی شہید جبکہ 760 زخمی ہو گئے‘ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے کے بعد جائے وقوع پر خوفناک مناظر تھے، ہر طرف زخمی کراہ رہے تھے اور لاشیں بکھری پڑی تھیں‘ دوسری جانب غزہ میں نصیرت، بوریج اور خان یونس کے کیمپوں پر بھی اسرائیل نے فضائی حملے کیے، بمباری سے کم از کم 30 فلسطینی شہید ہو گئے‘ اب تک اسرائیلی افواج کے حملوں میں شہداء کی مجموعی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 73 ہزار سے زاید فلسطینی زخمی ہیں اب جب کہ بہت وقت گزر چکا ہے اب فلسطینی صدر محمود عباس بھی بولے ہیں کہ حالیہ واقعہ بدترین قتل عام اور نسل کشی پر مبنی جنگ کا حصہ ہے۔ اسرائیلی حملے کے ردعمل میں حماس نے اسرائیل کے ساتھ تمام مذاکرات روکنے کی دھمکی دی ہے کہ مذاکرات نہتے اور لاچار فلسطینی قوم کے خون سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 100 سے زاید اموات کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے نہتے فلسطینیوں کا قتل عام ناقابل قبول قرار دے دیا ہے‘ فرانس اور اسپین نے بھی اِس واقعے کی شدید مذمت کی ہے بلکہ فرانسیسی صدر نے تو سوال اُٹھایا ہے کہ ایسے کسی حملے کا کوئی جواز دیا جاسکتا ہے؟ ترکیہ کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کی طرف سے امدادی قطاروں میں کھڑے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کا مقصد فلسطینی عوام کو شعوری اور اجتماعی طور پر تباہ کرنا ہے۔ تجزیہ کار اسرار الحق مشوانی نے بتایا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ میں فوجی آپریشن ختم کرنا چاہیے لیکن اسرائیلی حکومت کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے عقل اور ضمیر نہیں ہے، پوری دنیا کو یہ دیکھنا چاہیے کہ غزہ میں ظلم ایک تباہی میں بدل رہا ہے جس کے عالمی اثرات مرتب ہوں گے امریکا جو کہ اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، وہ بھی اِس معاملے پر سوگوار ہے اور اِس نے اسرائیل سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ‘ اس واقعے کو تقریباً 5 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کا بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے‘ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا میں آج بھی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا ہی قانون رائج ہے‘ طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں چور کسی کو بھی مسل دینے کی استطاعت رکھتا ہے اور مظلوم اس کا نہ تو راستہ روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف جا سکتا ہے‘ امریکا اب مطالبہ تو کر رہا ہے لیکن سلامتی کونسل میں وہ 3 مرتبہ فلسطین میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر چکا ہے‘ اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر جنگ مسلط کرنے کو وہ حق دفاع کا نام دیتا ہے، یہ کس قسم کا حق دفاع ہے کہ معصوم لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے فائر کھول دیا جائے۔ اگر اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے تو اِس کے حمایتی ممالک اُس کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ فلسطینیوں کا تو کوئی والی وارث نہیں ہے، اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں یا پناہ گزین کیمپ، کوئی جگہ، کوئی بھی کو نہ اُن کے لیے محفوظ نہیں ہے‘ مسلم دنیا اور عالمی دنیا کے یہ جرائم ہی حماس کی طاقت کا باعث بنے ہیں۔