مزید خبریں

بھارت شدت پسند ہندو ریاست بن چکا، مسلمانوں کا مستقبل مخدوش ہے

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد)بھارت شدت پسند ہندو ریاست بن چکا، مسلمانوں کا مستقبل مخدوش ہے ‘ مسلمانوں پر پہلے ہی مذہبی، سماجی، سیاسی و معاشی لحاظ عرصہ حیات تنگ کیا جا چکا ‘ اب شہریت بھی خطرے میں ہے‘ 13ہزار مدارس کو بندکرنے کا فیصلہ کرلیا گیا‘ انتخابات سے چند ہفتے قبل متنازع شہریت ایکٹ کا نفاذ بی جے پی کی ہندو ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنے کی چال ہے۔ ان خیالات کا اظہار تجزیہ کار دانشور اور قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل،تحریک انصاف کے رہنما انجینئر افتخار چودھری اور تاجر رہنما مدثر فیاض چودھری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ بھارت میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے دینی مدارس بند کرنے کی سفارش کی ہے کہ یہ مدارس حکومت سے غیر منظور شدہ ہیں‘ مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مدارس یا دیگر ادارے اگر منظور شدہ نہیں ہیں تو ان کو آسانی سے قانونی شکل دی جا سکتی ہے‘ پاکستان میں بہت سے مدارس غیر رجسٹرڈ تھے جن کو رجسٹریشن کروانے کا موقع دیا گیا اور آج وہ قانونی حیثیت اختیار کر چکے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں‘ بھارت کو ہو سکتا ہے پاکستان سے یہ مثال لینے میں پس و پیش ہو‘ ویسے نیت صاف ہو تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ایسے اقدامات کو پیش نظر رکھ سکتا ہے۔ مدارس بند کرنے جیسے فیصلے، مسجد کی جگہ مندر بنانا، کورونا کے دنوں میں مسلمانوں کے اسپتالوں میں علاج کرانے پر پابندی، یہ سب کچھ تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے‘ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، ان کے ساتھ اگر یہ سلوک ہوتا ہے تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سکھوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیسا برتائو ہوتا ہوگا؟ اسی وجہ سے سب اقلیتیں مل کر سراپا احتجاج بنی رہتی ہیں۔ بھارتی ریاست کے سیکولر ہونے کے بڑے بڑے دعوے ہوتے رہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی سرکار اس کو اب شدت پسند ہندو ریاست بنا چکی ہے۔ مدارس بند کرنے کا فیصلہ بھی ہندو توا مائنڈ سیٹ کا عکاس ہے۔ اس سے کمیونٹیز کے مابین نفرتوں میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہ نفرتیں شدت پسندی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی بنا پر اقلیتوں کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے خلاف فوری طور پر اقوام متحدہ، اس کے ذمہ دار اداروں اور بھارت کے ہر اقدام کی حمایت پر آمادہ اس کے دوست امریکا کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں کاشی وشواناتھ مندر ٹرسٹ کو پوجا کا حق دینے کے بنارس کے ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انجمن انتظامیہ مساجد کی درخواست خارج کر دی۔ ڈسٹرکٹ جج نے بنارس کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو جائداد کا نگراں مقرر کیا تھا اور 31 جنوری کے حکم میں گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی تھی۔ مسلمانوں کی دونوں اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس روہت رنجن اگروال نے کہا کہ کیس سے متعلق تمام دستاویزات کو دیکھنے اور متعلقہ فریقوں کے دلائل پر غور کرنے کے بعد31جنوری کے حکم میں مداخلت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ مسجد کمیٹی کے وکلا نے کہا شیلندر کمار نے غلط بیانی کر کے مقامی عدالت سے اجازت نامہ لیا‘ عدالت عظمیٰ منسوخ کرے۔ انجینئر افتخار چودھری نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوری سیکولر ریاست بھارت کا مسلمانوں کے خلاف تعصب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے‘ مودی سرکار کی سرپرستی میں اس کی پروردہ آر ایس ایس اور جنونی ہندوئوں نے بھارتی مسلمانوں کا عرصہ حیات عملاً تنگ کیا ہوا ہے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ان کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بھارت میں متعصب سیاسی قیادت اور جنونی ہندو ہی نہیںبلکہ انصاف فراہم کرنے والی بھارتی عدالتیں بھی مسلمان دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ایک اور خصوصی عدالت نے فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں میں ملوث سوامی آسیم آنند سمیت چاروں مجرموں کو باعزت بری کر دیا تھا۔ اس لیے بھارت میں مقیم مسلمانوں کو بھارتی عدالتوں سے کسی انصاف کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ مودی سرکار نے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے‘ وہ عالمی برادری‘ انسانی حقوق کے علمبردار اداروں اور تنظیموں کو کیوں نظر نہیں آتا‘ اگر انصاف فراہم کرنے والے عالمی ادارے اسی طرح خاموش رہے تو بھارت میں مسلم کش فسادات کی نئی لہر کو کوئی نہیں روک سکتا جس کا راستہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ہموار کر دیا ہے۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ بھارتی حکومت نے ملک میں شہریت کا متنازع قانون ’سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ‘ نافذ کردیا۔ بھارتی حکومت کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب چند ہفتے بعد ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں‘ اس قانون کی منظوری دسمبر 2019ء میں ہوئی تھی جس کے بعد ملک میں اس قانون کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں 100 سے زاید افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس قانون کے مطابق مرکزی حکومت 31 دسمبر 2014ء سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوؤں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں اور مسیحیوں کو شہریت دے سکتی ہے لیکن قانون میں مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔