مزید خبریں

گھوٹکی میں جیتنے اور ہارنے والے اُمیدواروں اور پی پی کے اندرونی اختلافات کی کہانیوں کی تفصیلات

گھوٹکی (رپورٹ: محمد کلیم صادق بھٹی) ضلع گھوٹکی کی پی پی میں اندرونی خلفشار بھرے کرداروں کے کھلے اور چھپے ہوئے طاقت ور کردار سے پی پی سے ضلع کی 2 اہم صوبائی نشستیں چھن گئیں اور پی پی ضلع کی 6 کی 6 سیٹیں جیت کر ضلع کو کلین سوئپ کرنے کی تاریخ رقم کرنے سے محروم رہ گئی۔ ضلع کی 2 قومی اور 4 صوبائی اسمبلی کی کل 6 نشستوں میں سے 2 قومی اور 2 صوبائی اسمبلی سمیت 6 میں سے 4 نشستیں جیت کر پی پی نے ضلع کو اپنے قبضے میں کر لیا اور ہاری گئی 2 سیٹوں پر پی پی کی ہار میں مقامی طور پر پی پی کے باہمی اور ذاتی خلفشار اور اختلافات کے ترش و تلخ کردار نے اپنا بہت بڑا اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ ضلع کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 198 گھوٹکی ون کی اہم اور ٹف ٹائم مقابلہ بھری سیٹ پر سخت دو بدو مقابلے کے بعد اس سیٹ پر پی پی کے اُمیدوار خالد احمد خان لنڈ نے 120259 ووٹ لے کر اس سیٹ کو مسلسل 3 تیسری بار جیت کر اپنی ہی ماضی کی جیت کو ایک بار پھر سے جیت لیا اور ان کے مد مقابل آزاد اُمیدوار عبدالحق عرف میاں مٹھو نے 90629 ووٹ حاصل کر کے اسی سیٹ اور اسی اُمیدوار سے اپنی ماضی کی ہار کو اب کے 2024 میں پھر سے ہار لیا، ضلع کی دوسری قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 199 گھوٹکی ٹو کی نشست پر پی پی کے اُمیدوار علی گوہر خان مہر نے 154833 بھاری لیڈ بھرے ووٹ حاصل کر کے اس سیٹ کو جیت لیا ہے اور ان کے مد مقابل جے یو آئی (ف) کے اُمیدوار مولانا عبدالقیوم ہالیوجی نے صرف 40204 ووٹ حاصل کر کے شکست حاصل کی، ضلع گھوٹکی کے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 18 اوباڑو ون پر اسی حلقہ انتخاب سے 2013 تک کم و بیش 4 مرتبہ پی پی کی ٹکٹ پر مسلسل الیکشن جیت کر صوبائی وزارتوں پر تعینات رہنے والے اور 2018 کے الیکشن میں عمران خان کے آنے والے سونامی کے سیلاب میں بہہ کر 2018 کے پی ٹی آئی اُمیدوار اور اب کے الیکشن میں اسی حلقہ کے پی پی کے اُمیدوار شہر یار خان شر کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد پی پی ٹکٹ پر سینیٹر بننے والے پی پی کے بہت پرانے اور صوبائی سطح کے رہنماء اور الیکشن میں اپنے 2018 کے حریف جو 2017 میں عمران کی ڈوبتی ہوئی کشتی سے قلابازی بازی کھا کر پی پی ایم این اے خالد احمد خان لنڈ کی مدعیت اور مشیت بھری سرپرستی میں پی پی کی چلتی ہوئی سندھ حکومت کی کشتی میں سوار ہونے والے اور اب 8 فروری کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پی پی میں موجود اپنے مضبوط اور مستحکم حلیفوں کی حلیف کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر کے اپنے لیے اس حلقہ کے انتخابات کے لیے جام مہتاب حسین ڈھر کی اپنی تمام تر بھاگم دوڑیم اور شور شرابوں کے باوجود پھر بھی پی پی کی ٹکٹ حاصل کرنے والے والے ان کے حریف شہر یار خان شر کے پارٹی ٹکٹ حاصل کر لینے پر پی پی سے اختلافات اور تحفظات کے بعد الیکشن میں اسی حلقہ سے شہر یار خان شر کے مد مقابل بطور آزاد اُمیدوار جام مہتاب حسین ڈھر نے صوبائی نشست پر پی پی کی مقامی اور مرکزی قیادت کی تمام مخالفت و مشکلات کے باوجود ضلع گھوٹکی بھر کی تین ٹف ٹائم مقابلہ بھری سیٹوں میں سے 2 اہم نشستوں پی ایس19 اوباڑو ون کی نشست پر مقابلے کے بعد 56285 ووٹ لے کر اپنی 2018 کی ہاری ہوئی سیٹ کو بطور آزاد اُمیدوار جیت کر اپنی ہی پیپلزپارٹی کی بند آنکھیں کھول کر رکھ دیں، جام مہتاب حسین ڈھر کے مد مقابل پی پی کے اُمیدوار شہر یار خان شر 54705 ووٹ لے کر اس نشست پر اپنی 2018 کی جیت بری طرح ہار گئے ہیں۔ ضلع گھوٹکی کے سندھ اسمبلی کی دوسری اور ضلع گھوٹکی کے ٹف ٹائم سخت مقابلہ اور اس نشست پر پی پی کی کھینچا تانیوں بھرے باہمی اندرونی خلفشاریت کے لحاظ سے ضلع بھر کی 3 اہم اور توجہ طلب نشستوں میں سے ضلع کی 3 تیسری اہم ترین نشست پی ایس19 ڈھرکی ٹو پر پی پی ضلع گھوٹکی کے دونوں ایم این ایز علی گوہر خان مہر اور خالد احمد خان لنڈ کھلے عام اور دیگر رہنماؤں کی خفیہ حمایت یافتہ اس صوبائی حلقہ پر بطور آزاد اُمیدوار الیکشن لڑنے والے لغاری قبائل کے سردار نادر اکمل خان لغاری نے سندھ اسمبلی کی اہم نشست کو ایک بہت ہی بڑے اور ٹف ٹائم مقابلہ کرنے کے بعد 55683 ووٹ لے کر ماضی کے کم و بیش الیکشن 2009 کے صدر مشرف کے 13 سالہ دور کے الیکشن میں اسی حلقہ کی پہلے جیتی ہوئی اس اہم نشست کو ایک طویل دورانیے والے وقفے کے بعد اب کے الیکشن 2024 میں ایک بار پھر سے جیت کر ماضی کی اپنی جیت کو پھر سے جیت کر سب کو حیران اور پی پی کو شدید پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح حلقہ پی ایس20 تحصیل گھوٹکی3 کی نشست کو پی پی کے اُمیدوار اور مہر قبائل کے سردار احمد بخش مہر نے اس نشست کو 87431 ووٹوں کے بھاری بھرکم لیڈ سے جیت کر اس سیٹ کو اپنے نام کر لیا، ان کے مد مقابل جے یو آئی ف کے امیدوار مولانا محمد اسحاق لغاری نے صرف 9401 ووٹ لے کر شکست حاصل کی ہے۔ اسی طرح حلقہ پی ایس 21 خانگڑھ 4 کی صوبائی نشست پر پی پی کے اُمیدوار علی نواز خان مہر نے بھی اپنی آبائی نشست کو 63758 ووٹ لے کر با آسانی جیت کر اپنے نام کر لیااور ان کے مد مقابل جے یو آئی ف کے اُمیدوار غلام علی عباس صرف 29273 ووٹ لے کر شکست کھا گئے، تو اب آگے کے لیے دیکھنا یہ ہے کہ ضلع کے یہ 2 آزاد (پنچھی) اُمیدوار آئندہ 5 سال کے لیے کس سیاسی جماعت کی چھت پر بیٹھ کر مزے کرتے ہیں؟