مزید خبریں

حکمرانوں کی مطلوبہ صفات

اسلامی ریاست کا مقصد حاکمیت ِالٰہی اور اقامت ِدین کا نفاذ ہے۔ اس لیے اس کا نفاذ کر نے والوں کا ریاست کی بنیاد اور مقصد اور ہدف پر یقین اور دل و جان سے خلوص نیت کے ساتھ جدو جہد کرنا شرط اوّل ہے۔ یہ ایسا کام نہیں ہے کہ اسے ٹھیکے پر یا کرایے پر کام کرنے والوں کو دیا جائے، یعنی source out کر دیا جائے اور محض ایسے پیشہ ور ٹیکنو کریٹ افراد جو انتظامی اْمور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہوں لیکن ریاست کے نظریے پر یقین نہ رکھتے ہوں، انھیں ذمے داری دے دی جائے۔
حاکمیتِ الٰہی کے قیام اور اقامت دین کے لیے وہ افراد ہی موزوں ہو سکتے ہیں، جو قرآن و سنت، فقہ، اداراتی امور سے پوری واقفیت رکھتے ہوں۔

یہی مفہوم ہے امانت و دیا نت کا، یہی مفہوم ہے ایفاے عہد کا۔ یعنی صرف وہ جو عہد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی اس کام کو صحیح طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ اس کو یوں سمجھیے کہ اقامت ِصلوٰۃ کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ مسجد کے اردگرد رہنے والوں میں جو قرآن سے زیادہ تعلق رکھتا ہو، قرأت کے اصول جانتا ہو، جس کا کردار و عمل محلے والوں کے لیے مثالی ہو، وہی امامت کرے، لیکن عموماً ہر جگہ یہ شکل ممکن نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک امام کا تقرر کر دیا جاتا ہے۔

عموماً امام وہی ہوتا ہے جو خود قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہو، حفظ اور قرأت میں دوسروں سے افضل ہو، ایمان داری اور تقویٰ میں معروف ہو۔ ہم کسی مسجد میں کسی ایسے فرد کو، جو نہ قرآن کو اپنی کتاب مانتا ہو، نہ رسول کے خاتم النبیینؐ ہونے پر یقین رکھتا ہو، لیکن ہو بہت خوش آواز، اس کی خوش آوازی کی بنا پر امام مقرر نہیں کرتے۔ یہ ’عہدہ‘ کسی گویے کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس ذمے داری کے کچھ مطالبات ہیں جن پر اس کو پورا اْترنا چاہیے۔ ایسے ہی اسلامی ریاست میں سربراہی کی ذمے داری کے سزاوار صرف وہ ہیں، جن میں مطلوبہ صفات ہوں اور خود اس کے طالب نہ ہوں۔ ان کو اس ذمے داری پر مقرر کیا جاسکتا ہے، چاہے وہ پارلیمان کے ذریعے منتخب ہوں یا براہِ راست منتخب ہوں۔ گویا پہلی صفت ذمے داران کا خود اسلام کا علم اور اس پر مستقل عمل کرنا ہے۔

ایمان، علم، تقویٰ اور انتظامی صلاحیت کے ساتھ ساتھ منتخب کرنے والوں کا اعتماد بھی ایک بنیادی شرط ہے۔ بہترین حکمران وہ ہیں جو اپنے عوام سے محبت کریں اور عوام ان سے محبت کریں۔ وہ فرماں روا جو عوام سے خائف ہوں اور جن کے آگے پیچھے محافظوں کی ایک فوج ہر وقت انھیں اپنے عوام سے ’بچانے‘ کے لیے موجود رہے، اسلامی ریاست کے لیے سخت ناموزوں افراد سمجھے جاتے ہیں۔

ریاستی امور چلانے کے لیے فرماںروا میں اجتہادی صلاحیت کا ہونا بھی ایک شرط ہے۔ یہ اجتہاد محض معاشرتی مسائل کا نہیں بلکہ دفاعی معاملات میں، بین الاقوامی تنازعات میں، ملک کی معاشی، تعلیمی حکمت عملی میں، غرض یہ کہ ان تمام معاملات میں اس کا مجتہد ہونا ضروری ہے تاکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ کر سکے، ایک بنیادی شرط ہے۔

یہ خیال بے بنیاد ہے کہ اسلامی ریاست عیسائیت کی طرح تھیاکریسی (پاپائیت) کی قائل ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پادریت یا برہمنیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ کوئی خاص طبقۂ علما یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ حکومت کرے۔ اس بنا پر اسلام میں نہ تھیاکریسی ہے اور نہ فرقہ واریت بلکہ صحیح معنی میں خلافت جمہور ہے۔ عوام میں سے جو بھی باصلاحیت فرد اپنے تقویٰ، علم اور تجربے کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر ہو، وہ بڑی سے بڑی ذمے داری اٹھا سکتا ہے۔ اسی طرح ریاست کسی فرقے یا مسلک کی ریاست نہیں ہے۔ گویا اس کا کوئی فقہی مسلک یا مذہب نہیں ہے۔ یہ صرف شریعت کی بالادستی چاہتی ہے اور معاملات میں عام شہری جس فقہی مسلک کے قائل ہوں، اس کی روشنی میں ان کے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ ریاست مسالک سے بلند ہوکر قرآن و سنت کے نفاذ کی ذمے دار ہے۔

اسلامی ریاست کے خدوخال کے حوالے سے یہ امید رکھنا کہ قرآن کریم یا سنت میں علم سیاست اور اداراتی علوم کی کسی نصابی کتاب کی طرح ہر موضوع پر الگ ابواب قائم کیے گئے ہوں، قرآن سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ قرآن وسنت واضح عالم گیر اصول اور چند صورتوں میں متعین احکام دیتے ہیں، تاکہ انسانی معاشرے میں تبدیلی وارتقا ہوتا رہے اور یہ اصول اس تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر تبدیل شدہ حالت کے بارے میں رہنمائی فراہم کر سکیں۔