مزید خبریں

امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ 229ضلع ملیر،ممتازحسین سہتو

جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کے حلقہ 229کیلیے ممتازحسین سہتو کو اپناامیدوارنامزد کیا ہے آپ سندھ کے ضلع خیرپور کے سٹھارجہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گائوں میں ہی حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا گوہر رحمن، مولانا گلزار مظاہری، مولانا خلیل رحمن چشتی اور مولانا عبد المالک صاحب شامل ہیں ۔
زمانہ طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ اندرون سندھ لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 1980-1988تک ذمے داریاں نبھائیں۔ بی ایس سی سندھ یونیورسٹی سے کیا اور وکالت کی تعلیم ایل ایل بی شاہ لطیف یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تعلیمی دور سے فارغ ہوکر وکالت کا شعبہ اختیار کیا۔ اس سلسلے میں سکھر میں غلام قادر جتوئی کے شاگرد اور کراچی میں اسماعیل پٹھیار کے چیمبر سے منسلک رہے۔ اس کے علاوہ سندھ جوڈیشنل اکیڈمی ہائی کورٹ سے ایک خصوصی کورس کامیابی سے مکمل کیا۔
عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1991 مرکزی شوری کے رکن بنے اور اس وقت سب سے کم عمر رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ ضلع خیرپور کا قیم ، امیر ضلع، نائب امیر سکھر ڈویژن ، نائب امیر اور پھر قیم صوبہ سندھ اور آج کل نائب امیر صوبہ سندھ کی ذمے داریاں ہیںَ ۔ اس دوران شباب ملی سندھ کے رہے۔ اس کے علاوہ بحیثیت ناظم انتخاب صوبہ سندھ بھی اضافی ذمے داریوں میں شامل ہے‘ مرکزی مجلس عاملہ کے بھی رکن رہے۔
علاقے:
قومی اسمبلی کا حلقہ 229 پپری، گلشن حدید، میمن گوٹھ، شاہ لطیف ٹائون، کھگھرپھاٹک سے دنبہ گوٹھ کے درمیان دیہی علاقے پر مشتمل ہے ۔
ووٹرز کی تعداد:
حلقے میں ڈھائی لاکھ (2,50,000) ووٹرز ہیں جس میں مرد و خواتین کا تناسب تقریبا 60/40ہے۔
اس حلقے سے پی پی کے ساجد جوکھیو کئی باررکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں‘بدقسمتی سے ڈیولپ علاقے بھی کھنڈرات میںتبدیل ہوگئے۔ پرانے گوٹھ کسمپرسی کا شکار ہیں ، مکینوں کے لیے پانی ہے نہ روڈ کی سہولت ہے ‘تعلیمی ادارے ہیں نہ طبی مراکز‘ وفاق اورصوبے میںپی پی کی حکومت کے باوجود ساجد جوکھیوں نے ترقیاتی کاموں کا کوئی خاص منصوبہ علاقے کو نہیں دیا۔ حلقہ مسائلستان کی آماجگا ہ بنا ہوا ہے‘لوگ تنگ ہیں ان سے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بدعنوان ٹولہ اور ہمارے اورپر مسلط وڈیرہ شاہی کے ظلم و ستم کے شکار جو ان کے پاس بھیس بدل بدل کر سامنے آتا ہے اور اقتدار کے مزے لوٹتا ہے ان کی خواہشات کو دفن کردینگے۔ ممتاز حسین سہتو نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب ہوگا تو کڑا احتساب ہوگا۔ اب اگر کسی پر بھروسا کیا جاسکتا ہے تو وہ ہے جماعت اسلامی اور اس کے نامزد کردہ امیدوار برائے قومی و صوبائی اسمبلی ۔ انہیں ‘ترازو’ کے نشان پر کامیاب کرکے ایوانوں میں پہنچانا ہمارے لئے فرض بن چکا ہے بلکہ ماضی کے قرض کو چکانا ہم نے اپنے اوپرلازم کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جہاں جہاں بھی حلقے کے عوام سے رابطہ کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ علاقے والوں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کاساتھ دیا لیکن اس کے منتخب نمائندوں نے ہم سے وفا نہیں کی۔
منشور/لوگ جماعت اسلامی کو کیوں ووٹ دیں؟:
جماعت اسلامی کے منشور سے متعلق سوال پر ممتاز صاحب کا کہنا تھا کہ ہم کامیاب ہوکر عوام کی خدمت کرینگے۔ یہ ہی نہیں سوال یہ کہ لوگ جماعت اسلامی کو کیوں ووٹ دیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے حکومت میں نا ہوتے ہوئے بھی گلشن حدید کو ڈویولپ کیا۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو دستوری سفر ، قانون سازی کا سفر بذریعہ قومی اسمبلی یا نظریاتی کونسل کے ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرایا جائے جو ملک کی 99فیصد عوام کا مطالبہ ہے۔