مزید خبریں

شہر کی کنجی عوامی رائے کے برعکس پیپلزپارٹی کو دینے سے کراچی اور پاکستان مزید بدحال ہوگا حافظ نعیم الرحمٰن کا خصوصی انٹرویو

جسارت:کراچی کے بگاڑ کے اسباب ویسے تو بہت سے ہیں لیکن چند موٹے موٹے اسباب کیا ہیں؟
حافظ نعیم الرحمن: کراچی کے بگاڑ کے کئی اسباب ہیں اس سلسلے میں بنیادی طور پر سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کے کسی میٹرو پولیٹن شہر کے جو مسائل ہیں اسی طرح کے مسائل کراچی کے ہیں ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہر بھی بے روزگاری،روٹی کپڑا اور مکان کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ، دنیا بھر میں شہری آبادی میں اضافے کے بعد ہونے والی تحقیقات سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ بڑے شہروں میں عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک ان مسائل سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔ یہاں میں ٹوکیو کی مثال دینا چاہوں گا جہاں قانون کی عمل داری اور قوم کی تربیت یہ وہ دو عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہ بڑی آبادی ہونے کے باجود مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ شہریوں کی تربیت میں قانون سازی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ قانون اور تربیت دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شہر میں قانون موجود نہ ہو تو وہ جنگل کی مانند ہوتا ہے۔یہاں سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کسی بھی شہر کوچلانے کے لیے اچھے نظام کی ضروت ہے یہ نظام سیاسی اثر ورسوخ سے پاک ہو،

کراچی جیسا شہر جس میں بندر گاہ بھی موجود ہے اس شہرکے لیے ضروری ہے کہ حکومت گڈ گورننس کا مظاہر ہ کرے۔جہاں ملکی تاریخ میں میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کی مثالیں موجود ہیں وہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر سیاسی جماعتیں میثاق کراچی پر بھی بات کریں اورشہر کے لیے امن و امان ،گڈگورننس اور اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے پرباہمی اتفاق کریں۔یہ میثاق شہرکو ترقی کی شہراہ پر گامزن کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے ہمیں چھوٹے شہر آباد کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔شہروں کی آباد کاری کی حوالے سے اسلام نے ہمیں اہم بنیادی اصول دیے ہیں‘ نئے شہروں کو آباد کرنے کے لیے گڈگورننس اور مکمل طورپر ایک الگ نظام کی ضرورت ہے ‘جہاں کے تمام تر اختیارات انتظامیہ کے پاس ہوں۔

جسارت:بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور آپ کو مئیر بننے سے روکنے کے لیے جو کچھ ہوا اس کی روشنی میں آپ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات میں جیت ممکن ہے؟
حافظ نعیم الرحمن:جیت تو ممکن ہے،اس میں کیا شک ہے؟جماعت اسلامی نے ہر ہر محاذ پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے،عوامی مسائل کے حل کے لیے ہم نے نا صرف آواز بلند کی ہے بلکہ الخدمت کا خدمت نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں کام کررہا ہے،بات یہ ہے کہ قومی انتخابات کی صورتحال مختلف ہوتی ہے، یہاں ملکی اور عالمی سطح پر اٹھنے والے مسائل بھی ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں میئر شپ کے الیکشن میں بھی ہم جیت چکے تھے اس قسم کے معاملات کا انحصار اسٹیک ہولڈرز پرہوتا ہے کہ وہ شہر کی کنجی کس کے حوالے کر رہے ہیں۔ شہر کی کنجی عوامی رائے کے برعکس پیپلزپارٹی کو دینے سے کراچی اور پاکستان مزید بدحال ہوگا۔
درست مردم شماری پالیسی بنانے ‘ منصوبہ بندی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

جسارت:کراچی کی گنتی درست ہونے سے کیا فائدہ ہوگا؟
حافظ نعیم الرحمن:اصل فائدہ تو وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ویسے بھی آبادی کے حوالے سے معلومات کا ہونا کسی بھی ملک کے لیے ضروری ہے۔کسی ملک کی آبادی میں مرد و خواتین، بزرگ، بچے، صحتمند اور بیمار افراد کی مکمل معلومات کا ہونا نہایت ضروری ہے۔کیونکہ اسی کے سبب پالیسی بنانے اور منصوبہ بندی کرنے میں مدد فراہم ہوتی ہے اور وسائل کی تقسیم میں بھی یہ عمل معاون ثابت ہوتا ہے۔

جسارت:کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ پی ٹی آئی سے ہمدردی کررہے ہیں اور آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے الیکشن کمیشن کی زیادتیوں کےحوالے سے ؟
حافظ نعیم الرحمن:بنیادی بات سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس معاملے پر ہمارا مؤقف اصولی ہے۔اگر کسی ایک پارٹی کو الیکشن کمیشن اس طرح سے نشانہ بنا کر فیصلہ کرے گا تو یہ عمل جمہوریت کے لیے بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا ہرجماعت کو سیاست کرنے کا پورا حق حاصل ہے سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہئے ہمارا بس یہی مطالبہ ہے۔یہ مؤقف کسی ایک کے خلاف یا حق میں نہیں ہے۔

جسارت:کیا الیکشن کمیشن شفاف اور آزادانہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد کرواسکے گا ؟

ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ الیکشن کمیشن خود مختار اور آزاد ہونے کے باوجود جانب داری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے
حافظ نعیم الرحمن: آئینی طور پر الیکشن کمیشن مکمل طور پر ایک آزاد ادارہ ہے۔مگر زمینی حقائق اور ماضی کے تجربات یہی بتاتے ہیں الیکشن کمیشن کسی نہ کسی انداز میں جانب داری کا مظاہرہ کرتا ہے جو کہ اپنے حدور سے روگردانی ہے۔بنیادی طورپر شفاف الیکشن کروانا بھی ایک جدوجہد ہے،اسی عمل کے نتیجے میں ہم خیر تلاش کرتے ہیں ، پپوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ،الیکشن کے عمل سے لاتعلق رہ کر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے لوگوں کے پاس انتخاب میں چوائس موجود ہوتی ہے جس کا آزادانہ استعمال ان کا حق ہے۔

جسارت:متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن کیوں نہیں ہوتے؟
حافظ نعیم الرحمن:ہمارے ملک کا سیاسی نظام پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا اثر و رخ موجود ہے ہر انتخابات میں یہی الیکٹیبلز کسی ایک پارٹی میں کا حصہ بن کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں سیاسی جماعتیں انتخابات میں انہی الیکٹیبلز پر انحصار کرتی ہیں متناسب نمائندگی کے اس مروجہ نظام سے ثمرات سمیٹے جاسکتے ہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ سے اس معاملہ پر پیش رفت ممکن ہے جس کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے والی پارٹی باآسانی کر سکتی ہے۔متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات سے جاگیردار وسرمایہ دارالیکٹیبلزکی اجارہ دارہ ختم ہوسکتی ہی
جسارت:الیکٹرانک مشین سے لوگ کیوں فرار ہوتے ہیں؟

حافظ نعیم الرحمن:دنیا بھر میں ووٹنگ کے لیے الیکٹرونک مشین کوا ستعمال کیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں اس حوالے سے سوفٹ ویئر اور دیگر عوامل کو مسئلہ بنا کر اس موضوع سے راہ فرار اختیار کیا جاتا ہے میرا خیال یہ ہے کہ الیکٹرونک مشین کے ذریعے سے بیرون ملک ووٹرز کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے مکمل پلانگ کرنے کی ضرورت ہے۔
جسارت: بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرسکتی تھی مگر لیکن تحریک انصاف سے اس کا اتحاد کیوں نہ ہوسکا اور تحریک انصاف سے بلے کانشان چھن گیا تو کیا جماعت نے اس کے بعد ان کو ساتھ مل کر الیکشن لڑنیکی دعوت دی؟
حافط نعیم الرحمن: اصل میں اگر ہم اس طرح کی بات کرتے کہ تحریک انصاف کا نشان چھین لیاگیا اس لیے ترازو پر الیکشن لڑلو یہ بات مناسب نہ ہوتی کہ ہم ان کی مشکل ان کے سامنے کے مفاد پرست بن کر سامنے آتے کہ ٓائو تم ہماری سیٹ پر لڑلو وہ ایک پارٹی ہے جو سوچ پر وہ کھڑے ہیں اس کو ہم سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بلا چھیں جانے سے ان کواتنا فرق نہیں پڑے گاٹھیک ہے وہ اس کو آزما کر دیکھ لیں جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ الیکشن سے پہلے جس طرح جماعتوں کے درمیان رابطے اور بات چیت ہوتی ہے وہ ہوئی تھی لیکن ان کاوارا نہیں کھایا ظاہر ہے کہ وہ ایک مختلف قسم کے حالات سے گزر رہے تھے تحریک انصاف کا ایک مسئلہ ہے جب ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہورہاتھا اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھاتب بھی ان کو کراچی میں فیصلہ کرنے میں دشواری ہوتی تھی ان کے خصوصاً کراچی میں کافی اختلافات ہوتے تھے آپ نے دیکھا کہ 2018ء میں ان کو کراچی میں بڑا مینڈیٹ ملالیکن ان کی پارٹی کے لوگ کہیں کھڑے نہیں ہوتے تھے ۔ انہوں نے کراچی میں خود خان صاحب کو لیٹ ڈوائون کیاوہ کراچی آتے تھے توان سے اعلانات کروالیتے تھے کبھی گیارہ سو ارب کے کبھی کراچی پلان کبھی فلاں پلان اور ہوتا کچھ بھی تھاخود پی ٹی آئی والوں کو پتا نہیں ہوتا تھااتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود وہ کراچی کے لیے کوئی چیز بھی نہیں منواسکے حتیٰ کہ جو گرین لائن بن گئی تھی تھوڑا سا حصہ اس کارہ گیاتھا ساڑھے 3 سال وہ اس وفاقی میں صوبے کو آگے نہ بڑھاسکے ان کی جو پوری ٹیم کراچی میں ہے وہ اہل نہیں ہے اس کی وجہ سے پارٹی کونقصان ہوا خان صاحب کوبھی نقصان ہوا ابھی بھی مسئلہ یہ تھاکہ وہ الیکشن سے پہلے سنجیدگی سے بات کرتے تو کوئی نہ کوئی چیز بن سکتی تھی کسی نہ کسی صورت اور ظاہرہے جماعت اسلامی کی صرف تحریک انصاف سے ہی کوئی بات چیت کرسکتی تھی ان ہی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے‘ پیپلزپارٹی سے کیاایڈجسٹمنٹ ہوتی یا متحدہ سے کیااتحاد ہوتا یہ سب خود اتحادی ہیں پی ڈی ایم کی صورت میں ، اس لیے ہمارا اتحاد صرف تحریک انصاف سے ہی ہوسکتا تھا میں ان کو کوئی الزام نہیں دے رہا ہر پارٹی کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے ہمارے رابطے کے باوجود ان کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا۔