مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

معراج کی تعلیمات
یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سدرۃ المنتہیٰ سے آگے بلا کر حضورؐ کو انتہائی تقرب عطا فرمایا تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ وہاں حضورؐ کو ایسے اسرار کی تعلیم دی گئی جو امت سے مخفی رکھنے کے لیے تھی۔ سورہ تکویر میں صاف فرمایا گیا ہے کہ ’’اور وہ (ہمارا رسول) غیب پر بخیل نہیں ہے‘‘۔ یعنی جو غیب کے علوم اس کو دیے گئے ہیں وہ انہیں چھپا کر رکھنے والا اور انہیں اپنے تک محدود رکھ کر بخل کرنے والا نہیں ہے۔ یہی بات سورہ جن کی آخری دو آیتوں میں فرمائی گئی ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ رسول پر اپنے غیب کا جو علم ظاہر فرماتا ہے وہ تبلیغ رسالت کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہی بات سورہ مائدہ کی آیت 67 میں ارشاد ہوئی ہے کہ اے رسول! جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ سیدنا علیؓ سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی خاص تعلیم مخفی طور پر حضورؐ نے آپ کو دی تھی؟ انہوں نے برسر منبر اس کا انکار فرمایا اور اپنی تلوار کے نیام میں سے چند شرعی احکام نکال کر لوگوں کو بتائے جو انہوں نے حضورؐ سے سن کر لکھ لیے تھے۔
وحی متلو کے علاوہ اگر اس موقع پرکوئی تعلیم حضورؐ کو وحی غیر متلو کے طور پر دی گئی ہوگی تو لازماً وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور دین حق کو قائم کرنے کی حکمت ہی ہوسکتی تھی، جس کے اظہار کا موقع عنقریب ہجرت کے بعد حضورؐ کو ملنے والا تھا۔ یہ حکمت حضورؐ کے اس پورے کارنامے میں بھی ظاہر ہوگئی جو مدینہ طیّبہ کی دس سالہ زندگی میں آپ نے انجام دیا۔ اور یہ ان احکام امرونہی، ان مواعظ و نصائح اور ان قولی و عملی ہدایات میں بھی ظاہر ہوئی جن سے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی۔ ایسے اسرارو رموز اور اذواق و مواجید کا کوئی ثبوت ہمیں سنت میں نہیں ملتا جن کی تلقین امن سے مخفی رکھ کر کسی خاص شخص یا مخصوص اشخاص کو فرمائی گئی ہو۔
٭…٭…٭
جہاں تک دیدارِ الہٰی کا تعلق ہے اس کے بارے میں سوال بچشمِ سر دیکھنے کا تھا، اور معتبر احادیث کی رو سے حضورؐ نے اسی کا انکار فرمایا تھا۔
(ترجمان القرآن، اپریل 1977ء)