مزید خبریں

ن لیگ کی سرپرستی اور پی ٹی آئی کو نکیل ڈالنے سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)انتخابات میں ن لیگ کی سرپرستی اور پی ٹی آئی کو نکیل ڈالنے سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا‘ انتخابی عمل کو شفاف نہ بنایا گیا تو ہم بحران کی دلدل سے نکل نہیں سکیں گے‘آزادامیدوارحکومت بنانے اورگرانے میں کلیدی کردارادا کریں گے‘ وزیراعظم 5سال پورے نہیں کرسکے گا‘انتخابات کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے،آئین شکنی کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لا کر دفعہ 6 کے تحت سزا دی جائے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز قانون دان، سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن، جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری اور ممتاز تجزیہ نگار و کالم نویس پروفیسر یوسف عرفان نے ’جسارت‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا 8 فروری کے انتخابات سے پاکستان میں سیاسی استحکام آ سکے گا؟‘‘ اعتزاز احسن نے کہا کہ اس وقت انتخابات کے نام پر جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے‘ اس میں اتنی زیادہ آئین شکنی کی گئی ہے کہ اس کی مثال ماضی میں بھی ملنا مشکل ہے‘ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان اس کے براہ راست ذمے دار ہیں‘ نگراں حکمران اپنی آئینی مدت سے تجاوز کر چکے‘ انہیں بجٹ کا اختیار نہیں مگر وہ بجٹ بنا کر اس کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں‘ الیکشن کمیشن عدالت عظمیٰ کے 14 مئی 2023ء تک انتخابات کرانے کے فیصلے کو خاطر میں نہیں لایا‘ صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کے لیے بلایا تو انہوں نے جانے سے انکار کر دیا‘ کمیشن نے ایک جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر کے اسے انتخابات سے باہر کر دیا حالانکہ قانونی طور پر یہ جماعت موجود اور رجسٹرڈ ہے جو کام براہ راست نہیں کر سکتے تھے اسے باالواسطہ طور پر کر دکھایا۔ اس حد تک جانا کھلی کینہ پروری ہے۔ ریٹرننگ افسران کے دفاتر سے لوگوں کو اٹھایا گیا، ان کے کاغذات نامزدگی چھین کر پھاڑ دیے گئے مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘ اس کھلے جانبدارانہ طرز عمل اور سوچ کے ذریعے ملک کی بھاری اکثریت کو حق رائے دہی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ لندن منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت دکھاوے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے، اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا بلکہ50 ارب سے زاید رقم قومی خزانے سے خرچ کرنے کے باوجود ملک میں انتشار اور بے چینی میں اضافہ ہو گا اس دانستہ آئین شکنی کے ذمہ دار لوگوں کو کٹہرے میں لا کر دفعہ 6 کے تحت سزا دی جانی چاہیے ۔ محمد جاوید قصوری نے بتایا کہ اس وقت جس طرح باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں ایک جماعت کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے آئین و قانون کو پامال کیا جا رہا ہے جس کے باعث انتخابی نتائج 2013ء اور 2018ء کی طرح متنازع رہیں گے اور ملک پر اس کے بھیانک اور خطرناک اثرات مرتب ہوں گے‘ ہمارے پاس مختلف اضلاع سے شکایات آ رہی ہیں کہ حکومتی مشینری کھلم کھلا نواز لیگ کی سرپرستی کر رہی ہے اور جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اس طرح اپنے لاڈلوں کو زور زبردستی جتوایا گیا تو ملک اس کے برے اثرات کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنائیں جن کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہوں ورنہ ملک بحران کی دلدل سے نکل سکے گا اور نہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں گے۔ یوسف عرفان نے بتایا کہ آئندہ انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام کا کوئی امکان نہیں‘ جتنے بھی انتخابات ہوئے وہ سازشوں میں لپٹے ہوئے تھے ان کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا جو دکھایا جاتا ہے، ہوتا اس کے برعکس ہے یہاں کرتا دھرتا لوگوں کے اندرون اور بیرون ملک رابطے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں‘ آج کل انتخابات سے قبل ہر جماعت کا سربراہ وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ساڑھے17 ہزار میں سے ساڑھے 11 ہزار امیدوار آزاد ہیں جو حکومت بنانے اور گرانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے‘ یہ فیصلہ سازوں کی پالیسی کا حصہ اور خطرناک ہے کوئی وزیر اعظم 5 سال پورے نہیں کر پائے گا‘ یوں سارا انتخابی عمل سازشوں میں گندھا ہوا ہے، ’’ 9 ستارے۔ جیت کے ہارے‘‘ والی کیفیت ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن آزاد ہے نہ حکومت پاکستان کے تابع بلکہ عملاً ’’یو این ڈی پی‘‘ کا ذیلی ادارہ ہے، اسی طرح اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے اور ایف بی آر کو بھی نجی شعبے کے حوالے کر کے پاکستان کو مزید بے اختیار کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں کمزور پارلیمنٹ، مخلوط حکومت اور شراکت اقتدار بہت خطرناک ہوں گے‘ بیرونی قوتوں کا مقصد یہی ہے‘ وسیع تر حکومت کسی بھی فیصلے کی اہلیت سے محروم ہو گی جب کہ پاکستان میں مسائل کے حل اور اس کو بحران سے نکلنے کے لیے بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے‘ اس لیے 8 فروری کے متوقع انتخابات سے عوام کے مصائب میں کمی کی توقع ہے نہ ان سے سیاسی استحکام حاصل ہو سکے گا۔