مزید خبریں

معاشرہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوگیا ،دولت مند کامیاب اور غریب ناکام تصور کیا جاتا ہے

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) معاشرہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوگیا، دولت مند کامیاب اور غریب ناکام تصور کیا جاتا ہے‘ عیش و عشرت اور عزت کے لیے دولت جمع کرنے کی سوچ نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ سما جی اقدار بدل گئیں‘ اب تعلیم بھی جاہ وحشمت اور منصب کے لیے حاصل کی جاتی ہے‘ معمولی چیز کا حصول بھی مال کے بغیر ممکن نہیں‘ شادی بیاہ کرتے وقت مالی حیثیت کا خیال رکھا جاتا ہے‘ دین داری کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین ابو سفیان ہلالی،موٹیوشنل اسپیکر قاسم علی شاہ، دعوت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا عمران عطاری اور بیرون ملک مقیم کالم نگار انوار حیدر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرہ دولت کی محبت میں کیوں گرفتار ہے ؟‘‘ ابو سفیان ہلالی نے کہا کہ انسان کام کیسا بھی کرے، اس کا کردار کیسا بھی ہو لیکن ہر حال میں اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں، اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور سر آنکھوں پر بٹھائیں‘ عزت ہر کسی کو محبوب ہے اور ذلت و رسوائی کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور یہ اچھی بات بھی ہے کہ ہمیں ہر حال میں عزت والا پہلو اختیار کرنا چاہیے مگر ساتھ ہی اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عزت یا ذلت دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے، وہ جسے چاہتا ہے، عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے، ذلت و خواری میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن انسان اپنی بشری کمزوری اور ایمانی قوت میں کمی کے باعث اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ لوگوں میں اس کی عزت اور قدر صرف اس وقت ہوگی جب اس کے پاس دولت ہوگی بس اسی سوچ نے انفرادی سطح سے اٹھ کر پورے معاشرے کو اپنی لیپٹ میں لے لیا جس کانتیجہ یہ نکلاکہ پورا معاشرہ آج دولت کی محبت میں گرفتار ہے‘ ایک فرد بس چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں، اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور سر آنکھوں پر بٹھائیں لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے‘ انسان کام تو شیطانوں والا کرے لیکن بدلے میں اسے عزت کی چاہ ہو تو یہ ناممکن ہے، وہ اپنے کردار میں تبدیلی لانے کے بجائے مال و دولت جمع کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے تاکہ وہ اس کے سہارے معاشرے میں عزت پا لے اور جب اس کو دولت مل جاتی ہے، تو وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے‘ لمحوں میں دولت مند بن جانے کی ہوس شاید اسی دور کی خصوصی فکر ہے‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا یہ نائب شاید زمین پر اسی لیے بھیجا گیا ہے۔ وہ کائنات کا علم بھی اس لیے حاصل کرتا ہے کہ کائنات کی دولت کو قبضے میں لے آئے اور عیش کے سارے سامان فراہم کر کے دادِ عیش دینے میں لگا رہے‘ معاشرے کا ہر فرد، الا ماشاء اللہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ زندگی کے ان گنے چُنے دنوں میں جس قدر دولت سمیٹ سکے سمیٹ لے، اس کے سوا زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں ہے‘ یہی انسان کی معراج ہے‘ یہی قدر و عظمت کی علامت ہے اور یہی انسان کی فکر و صلاحیت اور تمام توانائی کا مقصد و محور ہے‘ آپ کسی سے تعلق جوڑ رہے ہوں یا کسی سے تعلق توڑ رہے ہوں‘ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کر رہے ہوں، یا رشتے سے انکار کر رہے ہوں، یا سماج میں سماجی تعلق رکھنے اور جوڑنے کا سوال ہو، اولین چیز جو تعلق جوڑنے اور کسی سے قریب ہونے میں فیصلہ کن بنتی ہے وہ دنیا کی دولت ہے‘ رشتہ قائم کرتے وقت جو سوالات ذہن کے اُفق پر قدرتی انداز میں اُبھرتے ہیں‘ وہ کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں: دولت و ثروت کا کیا حال ہے؟ بزنس کیسا ہے؟ عہدہ کیا ہے؟ آمدنی کس قدر ہے؟ جاگیر، جائداد اور رہن سہن کا معیار کیسا ہے؟ ان سوالات کی زبردست یلغار میں اول تو دین و اخلاق کا سوال سامنے ہی نہیں آتا۔ قاسم علی شاہ نے کہا کہ آپ جیسے ہی سوشل میڈیا آن کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی پوسٹ نظر آتی ہی ہے، جس میں دنیا کا کوئی امیر ترین آدمی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھاتا نظر آتا ہے‘ بل گیٹس، رتن ٹاٹا، اسٹیو جابز، جاک ما، جیسے بڑے سرمایہ دار ہر انٹرویو میں کامیابی (مالداری) کے ٹپس دیتے ہو ئے ملیں گے، خوشحال زندگی کے زینوں کی نشاندہی کرنے والی چھوٹی چھوٹی وڈیو کلپس ہر جگہ ملیں گی‘ سوشل میڈیا کے صارفین کی اکثریت بالخصوص نوجوان ان ’’اقوال زریں‘‘ پر جان نچھاور کرتے ہیں، جیسے انہیں کسی خزانے کی کنجی ہاتھ لگنے والی ہے جس کی تلاش میں وہ زندگی بھر سرگرداں رہے‘ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان سرمایہ داروں کے بتائے ہوئے اصول زندگی یا اصول تجارت کس قدر کامیاب ہوتے ہیں‘ یا دیکھنے والے ان پر کس قدر عمل کرتے ہیں اور زمینی حقائق سے وہ کتنے ہم آہنگ ہوتے ہیں‘ ویسے باتیں تو عموماً معقول ہوتی ہیں، اس لیے کے ان کی نظر میں جو اصل منزل ( مالداری) ہے‘ وہاں تک پہنچنے میں انہیں جن تجربات سے گزرنا پڑا ہے وہ انہیں تجربات و مشاہدات اور ان کے نتائج بیان کرتے ہیں‘ سرمایہ داروں کے تجربات و مشاہدات اور ان کے نصائح میں نوجوانوں کی اتنی زیادہ دلچسپی کا سبب کیا ہے اس کاجواب آسان ہے، تہذیب حاضر میں اولیت مال و دولت کو حاصل کرناہے‘ کامیابی کا معیار مال ہے، کامیاب وہی کہلاتا ہے جو مالدار ہے، غریب اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ناکام ہی تصور کیا جاتا ہے‘ چنانچہ جو جس قدر مالدار ہوتا ہے‘ اسے اتنا ہی کامیاب کہا جاتا ہے‘ وہ اسی قدر احترام کا حقدار سمجھا جاتا ہے‘ ہر تہذیب سب سے ’’معزز و مکرم فرد‘‘کا خطاب یا ’’تمغہ امتیاز‘‘ دینے کے لیے ایک معیار طے کرتی ہے، اس معیار کو پورا کرنے والا ملک، سماج، قوم اور وطن کا سب سے معزز فرد تسلیم کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے سماج، ملک، قوم میں عزت و شہرت ہر کسی کا خواب ہوتا ہے لہٰذا ہر فرد اس معیار تک پہنچنے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی کی تمام تر حرکت و نشاط اور ایکٹیویٹی اسی معیار کو پانے کے لیے ہوتی ہے، ’’حصول دولت‘‘ اس کے قول و عمل کا محور و مقصد بن جاتا ہے‘دولت کع حاصل کرنے والا ’’کامیاب‘‘ اور محروم رہ جانے والا ’’ناکام‘‘ کہلاتا ہے۔مولانا عمران عطاری نے کہا کہ ہم زمانہ رِسالت سے جس قدر دور ہوتے جا رہے ہیں اسی قدر قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل سے دوری پیدا ہوتی جا رہی ہے‘ معاملہ تعلیم و تربیت کا ہو یا کہ گھریلو زندگی اور کاروباری معاملات کا ہو، اپنے دین سے ناواقفیت کی بِنا پر ہماری سوچ اور معیار بھی بدلتا جا رہا ہے‘ کل تک جنہیں شریف، عزّت دار سمجھا جاتا اور مختلف معاملات میں دوسروں پر انہیں ترجیح دی جاتی تھی انہی کو آج ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے‘ اب جو شخص زیادہ دولت مند ہو اسی کو قابل عزت سمجھا جاتا ہے‘ کسی مجلس میں اس ہوس اور حرص و لالچ کا ذکر چھڑ جائے تو شاید ہی کوئی سنجیدہ انسان ایسا نہ ملے جو اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار نہ کرے لیکن عملاً کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے ہر انسان کا نصب العین شعوری یا لاشعوری طور پر یہی ہے کہ وہ جلد سے جلد دولت مند بن جائے اور اس کا محل دوسروں کے محل سے اونچا نظر آئے۔ اس کے پاس بے تحاشا طاقت اور اقتدار ہو‘ ہر ایک اسی فکر اور دھن میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لے، اس کو آرام و آسائش اور عیش و عشرت کے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم ہوں‘ آرائش و نمائش کی چیزوں سے اپنے دولت کدہ کو سجا لے، تاکہ اپنے عزیز و اقارب اور حلقہ احباب میں اپنی فوقیت اور عظمت کا سکّہ بٹھا سکے، محفل میں بیٹھ کر لاکھوں کی بات کرسکے اور ان اسباب و وسائل کا تذکرہ کرسکے جن کا ہونا آج زندگی کی قدر و عظمت کا معیار بن چکا ہے‘ بہترین لباس، بہترین سواری، شان دار کوٹھی اور اسباب زینت و آرائش سے دوسروں کو مرعوب کرنا، اپنی طاقت اپنی فوقیت جتانا، آج کا عام رجحان اور عام اندازِ فکر ہوگیا ہے۔ انوار حیدر نے کہا کہ سرمایہ اس لیے معاشرے میں عزت کا معیار بناکیونکہ سرمائے اور اس سے حاصل ہونے والی طاقت کی محبت انسان کے دل میں اس حد تک بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس کو عزت و عظمت کا معیار سمجھنے لگتا ہے‘ مال انسان کی بڑائی کا پیمانہ بن جاتا ہے اور جو اس سے محروم ہو اسے سماج میں کچھ اہمیت نہیں دی جاتی‘ اس لیے کہ معمولی سے معمولی چیز کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں‘ اسی بنا پر انسان کی فطرت میں اس کی محبت شامل ہے‘ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ دراصل یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو پا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے یا ان پر اترانے یا گھمنڈ کرنے لگتا ہے ‘ پیدائشی محبت تو بچے کو اپنی ماں سے ہوتی ہے‘ پیسے سے محبت بعد میں سماج کی وجہ سے ہوتی ہے‘ جب وہ دیکھتا ہے کہ پیسے کی وجہ سے ایک آدمی سرگرداں پھرتا ہے‘ پیسے کے پیچھے بھاگا پھرتا ہے‘ بیمار دوائی کے پیچھے پِھر رہا ہے‘ ان ہی تمام چیزوں کے نتیجے میں انسان کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان چیزوں کا علاج شاید دولت ہی ہے‘ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشرے میں قیامت برپا کردی‘ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے ان بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کمزور ہوتے ہیں ۔