مزید خبریں

مستحکم سیاسی نظام اورمتعین اہداف کوحاصل کرنا ہی چین کی ترقی کا راز ہے

 

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) مستحکم سیاسی نظام اورمتعین اہداف کوحاصل کرنا ہی چین کی ترقی کا راز ہے‘ چین نے ایک نظام بنایا جس میں ریاست کو اہمیت دی اور عوام سے کہا کہ وہ ریاست کے لیے کام کریں گے اور ریاست کی بھلائی میں ہر چینی کا کردار ہوگا وہاں تعلیمی نظام ایک بنایا گیا اور اس کے نیچے ہی معاشرے کی تشکیل ہوئی‘ اس نہج پر چینی صدر مائوزے تنگ انقلاب لائے اور انہوں نے افیونی قوم کو دنیا کی معاشی مارکیٹ کا سردار بنا دیا‘ ماؤ زے تنگ ایک چینی مارکسی عسکری و سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے چینی خانہ جنگی میں چینی کمیونسٹ جماعت کی قیادت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور یکم اکتوبر 1949ء کو بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1945ء سے 1976ء تک چین کی کمیونسٹ جماعت کے چیئرمین رہے جبکہ 1954ء سے 1959ء تک عوامی جمہوریہ چین کی صدارت سنبھالی‘ مائوزے تنگ نے ایک ایک افیونی کو لٹکایا جس کے بعد چین نے ترقی کی ‘ چین خود تسلیم کرتا ہے کہ60 کی دہائی تک پاکستان سے ٹیکنالوجی لیتا رہا ہے لیکن آج وہ ہمیں گوادر جیسے پروجیکٹ دے رہا ہے اور سی پیک لا رہا ہے‘ ابھی حال ہی میں ایک دھمکی سمجھ
لیں‘ ہمیں کہا گیا ہے کہ اگر ہم اپنی پالیسی تبدیل نہیں کریں گے اور تو جو 65 ارب کی رقم اور جو پیسہ گوادر ائر پورٹ پر لگایا گیا ہے اسے پاکستان واپس کرے‘ اگر یہ بات آگے بڑھ گئی تو ہمارے لیے مشکل پیدا ہوجائے گی۔ان خیالات کا اظہار تجزیہ نگار نعیم سندھو ،چین میں قیام پذیر ایک پاکستانی بزنس مین بلال احمد ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ڈیموکریٹس) کے مرکزی صدر، تجزیہ نگار مقبول احمد، دانشور اور تجزیہ نگار نذیر آرائیں، تجزیہ کار جاوید ملک اورچیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق نائب صدر مدثر فیاض چودھری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’چین کی معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟‘‘ نعیم سندھو نے کہا کہ محنت اور نیت صاف رکھ کر کام کرنا چین کی ترقی کا راز ہے۔ بلال احمد نے کہا کہ محنت کرنا، کرپشن نہ کرنا، عام آدمی پر بلا وجہ ٹیکس نہ لگانا، چھوٹے تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا، مختلف شہروں میں چھوٹی بڑی فیکٹریوں کا قیام، مختلف صنعتوں کو فروغ دینا، زراعت میں خود کفیل ہونا، برآمدات میں اضافہ اور سب سے بڑی بات ایک ہی پارٹی کی گورنمنٹ کا مسلسل رہنا، ملک اور عوام پر الیکشن کا بوجھ نہ ڈالنا یہ چین کی معاشی ترقی کا راز ہے۔ مقبول احمد نے کہا کہ چین نے اپنے سیاسی و معاشی نظام میں استحکام لا کر ترقی کی ہے‘ ابھی حال ہی میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل کام نہیں کر رہا، وہ اپنے ہم عصرممالک سے معاشی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے‘ غربت میں کمی کے حوالے سے ہونے والی نمایاں پیش رفت اب واپسی کا سفر طے کرتی نظر آ رہی ہے اور ترقی کے ثمرات سے صرف ایک محدود طبقہ ہی محظوظ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سرکردہ تنظیم یو این ڈی پی کی تازہ ترین رپورٹ میں شائع ہونے والے پالیسی وژن آرٹیکل میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے لکھا کہ پاکستان میں اِس بات پر وسیع اتفاقِ رائے موجود ہے کہ ایسی تمام پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے ترقی کی رفتار متاثر ہوئی، جن کا فائدہ مخصوص افراد کو ہوا لیکن اِن پالیسیوں کے باعث معیشت میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آئے۔ اُن کی تحریر کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے دھچکوں اور قدرتی آفات کے ممکنہ تباہ کن اثرات پہلے ہی ظاہر ہو چکے ہیں۔ عالمی بینک کے عہدیدار نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ زرعی خوراک اور توانائی کے اہم شعبے میں پالیسی کی ناکامیوں اور بگاڑ کو دور کیا جانا چاہیے‘ زراعت میں سبسڈی اور قیمتوں کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کسان کوکم قیمت والے کاشتکاری کے نظام نے جکڑ رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماحول کو نقصان پہنچانے والے پیداواری طریقوں سے بھی نجات حاصل کرنی چاہیے‘ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے معاشی استحکام کی جانب مستحکم پیش رفت ممکن ہے‘ تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نجی شراکت داری میں اضافہ اور قابل ِ تجدید پیداوار کے ذریعے بجلی کے اخراجات کا مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔ نذیر آرائیں نے کہا کہ چین کی ترقی کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے نظام کا جائزہ لینا ہوگا‘ اس کی حکومت نے اپنے ملک کے لیے کچھ اہداف متعین کیے ہوئے ہیں‘ جس کی تکمیل کے لیے وہ ہر حد تک جاتی ہے‘ یہ اہداف بھی اس نے بہت سوچ سمجھ کر مستقبل کو سامنے رکھ کر طے کیے ہوتے ہیں لہٰذا وہ اس پر سمجھوتا نہیں کرتی یہی اس کی معاشی ترقی کا راز ہے‘ اب پاکستان کو دیکھ لیں‘ کئی بحران میں گھرا ہوا ہے، اسے فیصلہ کرنا چاہیے کہ اِسے اسٹیبلشمنٹ، سیاسی اور کاروباری رہنماؤں کے مفادات کے تحت چلنے والے ایسے پالیسی فیصلوں کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے جن کی وجہ سے40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے یا پھر تابناک مستقبل کے لیے اپنا راستہ تبدیل کرنا ہے‘ بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت دار صرف کامیابی کے عالمی تجربات اور کچھ مالی امداد کے ساتھ مشورے تو دے سکتے ہیں لیکن درست سمت میں قدم اٹھانے کا فیصلہ ملک کو خود ہی کرنا ہو گا‘ پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ’’ممکنہ اصلاحات‘‘ کے نام سے جاری کی جانے والی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت، انڈونیشیا اور ویت نام جیسے اعلیٰ پائیدار اقتصادی ترقی کے حامل ممالک نے بھی بحران کے وقت درست فیصلے کیے اور اِسی طرح کے چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب رہے جن سے پاکستان نبرد آزما ہے۔ جاوید ملک نے کہا کہ چین ہی نہیں دنیا کے کامیاب معاشی ماڈل کو دیکھ لیں وہاں فیصلہ ساز قوتوں میں کوئی باہمی جھگڑے نہیں ہوتے‘ ایک پالیسی طے کرلی جاتی تو پھر اس پر عمل ہوتا ہے اس میں بار بار تبدیلی نہیں کی جاتی‘ پاکستان میں یہ سب کچھ ہوتا ہے یہاں تو ہر جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اسٹریٹ پاور کو صرف اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا جائے اور وہ یہ کام کرتی رہتی ہے‘ چاہے ملک کو اس کا نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ ریاست پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ چلتی ہے‘ آنے والی منتخب حکومت پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنائے گی‘ نگراں حکومت سابق حکومت کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ آئندہ منتخب ہونے والی حکومت بھی اِنہی پالیسیوں پر عملدرآمد کرے گی جب تک پاکستان معاشی بحران سے نکل کر معاشی ترقی کے سفر پر گامزن نہ ہو جائے‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کو پالیسیوں کے تسلسل کی اہمیت کا ادراک ہو چکا ہے اور اِس پر کسی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں ہو گی کیونکہ طویل المعیاد بنیادوں پر ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اصلاحات کی کوششیں خصوصاً دوررس ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور محتاط معاشی انتظام یقینی بنانے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ یہ درست ہے کہ آئندہ حکومت کو سخت معاشی حالات کا سامنا کرنا ہو گا‘ زراعت اور ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس عاید کرنے سمیت دیگر تمام مجوزہ اصلاحات کو یقینی بنایا گیا تو پھر آئندہ چند سال میں پاکستانی معیشت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے‘ ہمارے ملک کی پالیسیاں ایک مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائی جاتی ہیں‘ ساری آسانیاں بھی اِسی کے لیے ہیں‘ عام آدمی کے لیے تو مسائل کا انبار ہے‘ زیادہ ٹیکس بھی اُسے دینا پڑتا ہے‘ مہنگائی بھی سب سے زیادہ اُسے ہی متاثر کرتی ہے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے دھکے بھی اُسے ہی کھانے پڑتے ہیں‘ سیاسی جماعتوں کو عوام دوست پالیسیوں کو اپنے منشور کا حصہ بنانا چاہیے اور آنے والی حکومت کو ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں جن سے تسلسل بھی برقرار رہے، عام آدمی کی شنوائی بھی ہو، اور نظام پر اُس کا یقین بھی مضبوط ہو۔ ملک کو درست سمت میں آگے بڑھانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنا معاشی ماڈل بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں تفریق بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے کا اہتمام کیا جا سکے۔