مزید خبریں

حُسنِ اخلاق کا بحران

ایک بڑا مسئلہ حُسنِ اخلاق کا ہے۔ لوگوں کے دل جیتنے، ان کو ساتھ لانے، جوڑے رکھنے اور ساتھ چلانے کے لیے سب سے مؤثر قوت حُسنِ اخلاق کی قوت ہے۔ یہ حْسنِ اخلاق، رافت و رحمت، نرمی و فیاضی، عفو ودرگزر اور اِکرام و احسان سے عبارت ہے۔ اصل کارگر اور مؤثر قوت نہ نظریے میں ہے، نہ کتاب میں، نہ کلام میں، نہ تحریر و تقریر میں، نہ ڈپلومیسی اور پبلک ریلیشن میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج دینی جدوجہد کرنے والوں کے اخلاق کو نبی کریمؐ کے خلقِ عظیم سے وہ کم سے کم نسبت حاصل نہیں ہوئی ہے، جو مطلوب اور ضروری ہے، اور جس کا حصول ممکن ہے۔یہ نبیؐ کا اخلاقِ کریمانہ تھا، جس کی مدح قرآن میں ہے اور جس کی تصویر سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے، جس نے مقناطیس کی طرح لوگوں کو اسلام کے دامن رحمت سے چمٹا لیا، اور چمٹائے رکھا:’’تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تْندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ (اٰل عمرٰن: 159)
’’تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے‘‘۔ (التوبہ: 128)
اس کمی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے: افغانستان میں اتنے طویل عرصے تک جہاد جاری رہا، کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن مجاہدین نہ باہم اْلفت و اعتماد کے رشتے میں جڑسکے، نہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مخالفین میں سے لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر آئے ہوں اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہوگئے ہوں۔ اور پھر جن کمیونسٹ جرنیلوں نے کسی گروہ کا ساتھ دیا، تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر۔ پاکستان میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیجیے، شاذ ہی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوگی جو مخالف کیمپ سے ٹوٹ کر آئے ہوں اور اب دین کے غلبے کو مقصد زندگی بنالیا ہو۔ طالبان کا گروہ خالص قیامِ شریعت کا دعوے دار ہے۔ ایک طرف طائف کا سفر دیکھیے اور ثقیف کے وفد کا خیرمقدم۔ سردارانِ قریش کے مظالم دیکھیے اور لَا تَثرِیبَ عَلَیکْمْ الیَومَ کی صدا، اور دوسری طرف [ان کے ہاتھوں سابق افغان صدر] نجیب اللہ کو پھانسی کے تختے پر لٹکا کر اپنے جوشِ انتقام اور حمیت دینی کی ’تسکین‘ کا سامان کرنا دیکھیے، جو اقوامِ متحدہ کی پناہ میں تھا، نہتا تھا اور غیرمسلم بھی نہیں تھا! حالانکہ مشرک بھی امان طلب کرے تو اسے امن تک پہنچانے کا حکم ہے۔صاحب ِ قرآن کے خلقِ عظیم سے کم سے کم نسبت کے حصول کے بغیر انسان جمع نہ ہوں گے، مخالفین کے دل مسخر نہ ہوں گے، اسلام کے غلبے کے لیے قوت فراہم نہ ہوگی، اور اس طرح دین کا قیام ایک اَمر محال ہوگا۔ خواہ ہمارے پاس اسلحہ کے ڈھیر ہوں، سیاسی اقتدار بھی ہو، دلائل کا انبار بھی ہو۔