مزید خبریں

پاکستانی عوام عافیہ کے ہمدردوں کو ووٹ دیں ۔ ڈاکٹر عافیہ

حالیہ دورہ پاکستان میں میری ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جس سے ملنے کا برسوں سے اشتیاق تھا۔ چونکہ میں جدہ میں قیام پزیرہوں اور اتفاقا اپنے علاج کے سلسلے میں کراچی ایا ہوا تھا توموقع ملتے ہی میں نے ایڈیٹرجسارت سید مظفراعجاز سے خواہش کا اظہار کیا۔ تو انہوں نے عافیہ موومنٹ پاکستان کے گلوبل کوارڈینیٹر پاکستان محمد ایوب صاحب سے رابطہ کر کے ملاقات کا وقت طے کیا۔ دوپہر کھانے کے بعدجب میری ملاقات ڈاکٹرفوزیہ صدیقی سے ہوئی یوں تو ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ سب کے علم میں ہے لیکن چونکہ ڈاکٹر فوزیہ تازہ تازہ ملاقات کرکے آئی ہیں اس لیے ان سے امریکا میں ایف ایم سی کارسویل میں ڈا کٹر عافیہ صدیقی کی موجودہ کیفیت اور خیریت دریافت کی توعزم و استقلال کی پیکر ڈاکٹر فوزیہ نے بڑے درد اورافسوس کے ساتھ کہا کہ معاملہ اچھا نہیں تھا۔ عافیہ کی حالت بھی خراب تھی۔

تشدد کے نشانات بھی تھے۔ ٹھنڈ میں گرم کپڑے بھی نہیں دیے جاتے۔ غرض جیل مینویل کی جتنی بھی خلاف ورزیاں ہوسکتی ہیں وہ کی جارہی ہیں ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں ایف ایم سی کارسویل میں اپنی بہن عافیہ سے دوبارہ ملنے سے قاصر تھی۔ وہ بظاہر ملاقات کرانا چاہتے تھے لیکن بہانہ یہ تھاکہ سیل کی چابی کھو گئی ہے۔ کیا آپ اس پر یقین کر سکتے ہیں؟ پہلے دن جب ملاقات کے لیے گئی تو کہا کمرے کی چابی کھوگئی ہے۔ ایک گھنٹہ انتظار کرایا۔اس مرتبہ سوشل وزٹ کا تھا یعنی کل 8گھنٹے کی میٹنگ رکھی تھی۔ ہفتہ کو چابی کھوگئی ، اگلے دن چابی مل گئی۔ ماحول بہت خراب تھا۔ بیچ میں شیشے کی دیوار حائل تھی۔ کمرے میں کوئی روشن دان بھی نہیں۔

کمرہ اتنا چھوٹا کہ اس میں مشکل سے ایک چھوٹا بیڈآتااور وہیں ڈبلیو سی بھی تھا۔ عافیہ کو 32گھنٹے اندر سیل میں رکھتے ہیں اور ایک گھنٹے کے لییباہر لاتے ہیں۔ کہتے ہیں عافیہ کو سیفٹی کے لییبند کیا ہے۔کیونکہ خدشہ ہے کہ اس پر دوسرے قیدی حملہ نہ کردیں۔ شکایت کے خوف سے نہیں پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں۔ وکیل کو سب پتا ہے۔ مجھ سے عافیہ صرف بچوں اور گھر کے بارے میں پوچھتی رہیں،سوچیں کتنا تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ مشکل سے ایک گھنٹاوکیل کے ٹائم میں ملنے دیا۔ وکیل کلائیو اسمتھ نے کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ جو سلوک عافیہ کے ساتھ ہوتا ہے وہ گواہیوں میں بھی کسی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ پہلی ملاقات میں جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد خان میرے ہمراہ تھے جبکہ دوسری مرتبہ جمعیت علمائے اسلام کے سنیٹر طلحہ محمود کے ہمراہ حکومت پاکستان کے ذریعہ یہ ملاقات ہوئی۔ ان کا سلوک اچھا تھا۔ قونصل جنرل اشعر شہزاد اور ہیڈ آ ف چانسری ساتھ رہے۔

طلحہ محمود نے ملاقات کے بعد حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ قوم کی بیٹی کو فورا رہا کرائیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں غیرت ہو تو فارن آفس دیکھے کہ یہ جینوا کنونشن کے خلاف ہے۔ اس سوال پر کہ اس وقت معاملہ کہاں اٹکا ہوا ہے ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ معاملہ اسوقت حکومت پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ پاکستانی صدر وزیر اعظم یا آرمی چیف چاہیں تو چند روز میں عافیہ وطن آسکتی ہے ۔آپ چونکہ عرب دنیا کے رہنے والے ہیں اس لیے عافیہ کا کیس شروع سے بتاتی ہوں ۔عافیہ صدیقی اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ انہیں 2010 ء میں نیویارک کی وفاقی عدالت نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش سمیت 7دیگر الزامات کی پاداش میں سزا سنائی گئی تھی۔

عافیہ صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008 ء میں افغانستان کے صوبہ غزنی میں افغان پولیس کے ایک کمپاؤنڈ میں ایک امریکی فوجی افسر کی رائفل اٹھائی اور امریکی فوجیوں سمیت ایف بی آئی کے اہلکاروں پر فائرنگ کی جو اس وقت عافیہ صدیقی کے القاعدہ سے مبینہ روابط کے بارے میں تفتیش کر رہے تھے۔یہ بھی واضح رہے کہ عافیہ صدیقی پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے امریکا کے ممتاز تعلیمی اداروں برنیڈیزیونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اپنی تعلیم کو مکمل کیا۔ عافیہ صدیقی 1991 ء سے جولائی 2002 تک امریکامیں مقیم تھیں۔مزید رپورٹس کے مطابق سال 2003 میں عافیہ صدیقی کراچی میں اپنے 3کم سن بچوں کے ہمراہ پر اسرار طور پر لاپتا ہو گئی۔ اس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بٹگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔ 2008 میں افغان حکام نے عافیہ صدیقی کی حراست کو ظاہرکیا۔ امریکی حکام کا دعوی تھا کہ ان کے قبضے سے ایسی دستاویزات ملی تھیں جن میں ڈرٹی بم بنانے کے بارے میں بات کی گئی تھی اور اس میں امریکا کے مختلف مقامات کی فہرست دی گئی تھی، جنہیں نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی الزام ثابت بھی نہیں کیا جاسکا اور القاعدہ و دہشت گردی وغیرہ کا الزام تو اس کی فرد جرم میں شامل بھی نہیں تھا۔عافیہ کے لییجدوجہد کے حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ نے کہاکہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پاکستان کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے کارکنوں سماجی وسیاسی تنظیموں اور صحافیوں نے بارہا آواز بلند کی مگر اب تک کوئی مثبت کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ البتہ ان سب کی کوششوں اور قوم کی دعاوں سے اتنا تو ہوا کہ دو عشروں کے بعدعافیہ سے ملاقاتیں ہوگئیں۔

عافیہ صدیقی کی سگی بہن فوزیہ صدیقی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے تحریک چلاتے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی اب تک سنجیدہ کوشش اور اقدامات کییہیں؟ ان کی رہائی کا معاملہ کئی بار ہائی کورٹ بھی آیا۔ اور سپریم کورٹ بھی گیا۔ مگر ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا اور عافیہ صدیقی کی سزا کے فیصلے کی نقل ابھی تک حکومت وقت کو بھی نہیں دی گئی۔ اور 2011 سے لے کر آج تک عافیہ صدیقی کے کیس میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ عافیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہے آخر اس کی رہائی کے لیے موجودہ اور ماضی کی حکومتیں سنجیدہ کیوں نہیں ہیں؟ اس پر بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عافیہ کی رہائی کبھی ممکن ہو سکے گی ؟ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ پاکستانی قوم اگر اب بھی نہیں اٹھے گی تو کب اٹھے گی۔ عافیہ کا معاملہ آنرکا معاملہ ہے۔ قوم انے والے الیکشن میں ایسے لوگوں کو منتخب کرے جو عافیہ کا ساتھ دیں۔انہوںجسارت کے توسط سے خادم ِحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزال سعود اور ولی عہد محمد بن سلمان سے دردمندانہ درخواست کی ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے قائد کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کی بیٹی جوانتہائی کسمپرسی کی حالت میں ناحق قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔اس کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر فوریہ نے مزید کہا کہ آئندہ وزٹ کا پتا نہیں۔ اس دفعہ اتنی مشکل سے ملاقات کرائی تھی۔ انہوں کہا عافیہ کے بچوں میں بیٹا احمد اوربیٹی مریم مل گئے، مگر ایک بیٹا سلیمان20 سال سے لاپتا ہے۔