مزید خبریں

اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پر مقدمات کی بھرمار کردی،اقتدار میں آنا مشکل ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)حکم عدولی پر اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پر مقدمات کی بھرمار کر دی ،پھر اقتدارمیں آنامشکل ہے‘آج کے لاڈلوں کو بھی یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ جو عدل و انصاف کے منافی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں‘ اس کے برے نتائج سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی‘ہر انتخابات سے قبل کسی نہ کسی بڑے سیاسی رہنما کو دوڑ سے باہر کردیا جاتا ہے جس سے ا لیکشن کے بعد انتشار بڑھتا ہے۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ، دنیا نیوز کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟‘‘ ضیا الدین انصاری نے کہا کہ سیاستدانوں کا مستقبل سیاسی سوچ سے وابستہ ہوتا ہے‘ اگر سیاستدان اپنی سیاسی سوچ کو عوام کی فلاح و بہود اور بہتری کے لیے کام میں نہ لائیں اور اقتدار میں آ کر سیاسی جوڑ توڑ اور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی معاشی ترقی تک خود کو محدود کر لیں تو ان کی سیاسی بقا کے امکانات محدود سے محدود تر ہوتے چلے جاتے ہیں‘ پاکستان کے سیاست دانوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ حالات سے سبق نہیں سیکھتے عمران خان سے پہلے جو سیاست دان اقتدار میں رہے‘ انہوں نے وہی غلطیاں کیں جو عمران خان کے دور اقتدار میں دیکھنے میں آئیں‘ چنانچہ انہیں اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا جن سے آج عمران خان دو چار ہیں اور ان کا سیاسی مستقبل خدشات کی زد میں ہے تاہم آج کے لاڈلوں کو بھی یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ جو عدل و انصاف کے منافی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں‘ اس کے برے نتائج سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی اور عین ممکن ہے کہ انہیں بھی اسی صورت حال سے سابقہ پیش آئے جس سے آج کل عمران خان گزر رہے ہیں۔ سلمان غنی نے رائے دی کہ پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ نہ صرف موجودہ بلکہ ہر انتخابات سے قبل ایک نہ ایک بڑے سیاسی رہنما کو سیاسی دوڑ سے باہر رکھنے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام کے بجائے انتشار بڑھ جاتا ہے‘ موجودہ حالات میں اگرچہ عمران خان کا کوئی سیاسی مستقبل دکھائی نہیں دے رہا مگر سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی فیصلوں کے ذریعے کسی رہنما کو سیاست سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ ایک بڑی مثال خود میاں نواز شریف کی ہے، 5 سال پہلے انہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے سیاست سے باہر کر دیا گیا مگر وہ پاکستان کی سیاست کی ایک بڑی حقیقت تھے اور ہیں‘ یہی بات عمران خان پر بھی صادق آتی ہے‘ موجودہ انتخابات کے حوالے سے ان کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا مگر سیاسی حوالے سے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ ان کے چاہنے والے کراچی سے خیبر تک بڑی تعداد میں بہر حال موجود ہیں‘ یہ سیاسی قیادت کے لیے لمحہ فکر ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں میں سہولت کار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جس کے سبب انتخابات کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام آتا ہے نہ ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے‘ جمہوری عمل اور انتخابات کے ثمرات ملک کی اشرافیہ کو تو ملتے ہیں مگر عوام ان سے محروم رہتے ہیں۔ اسد منظور بٹ نے کہا کہ پاکستان میں حکومتیں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے بنتی ہیں‘ پہلے نواز شریف سے ناراض ہو کر عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا مگر اس نے حکم عدولی اور نافرمانی کی تو حکومت سے فارغ کر کے اس کے خلاف مقدمات کی بھرمار کر دی گئی مگر اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ مہرے ابھی سے ناکام دکھائی دے رہے ہیں‘ آئندہ انتخابات میں اشرافیہ عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکے گی‘ ملک کا سیاسی درجہ حرارت بہت اوپر جا رہا ہے‘ عوام خود کو مجبور سمجھنے کے باوجود شدید غصے میں ہیں اور زمینی حقائق ماضی کے مقابلے میں خاصے بدل چکے ہیں۔