مزید خبریں

…کافراور مرتکبِ کفر

قربِ ہجرت سے پہلے کی کسی سورۃ میں بھی یہ بات نہیں مل سکتی کہ آپؐ نے اپنی قوم کو یا اہلِ کتاب کو صریح طور پر کافر ومشرک یا منافق وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہو۔ بالکل ابتدائی سورتوں میں زیادہ تر خطاب یا تو یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ کے الفاظ سے یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ یا، یَقْومِ کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح اہل کتاب کے لیے یٰٓااَھْلَ الْکِتَابِ کے یا اس کے ہم معنی الفاظ ہیں۔ یہاں تک کہ منافقین کے لیے بھی فتح مکہ کے بعد تک وہی عام لفظ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا استعمال ہوتا رہا اور صراحت کے ساتھ ان کو ’اے منافقو‘ کے الفاظ سے کہیں خطاب نہیں کیا گیا۔

لیکن جب ایک مدت کی دعوت و تبلیغ کے بعد قوم پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی اور نہ ماننے والوں نے نہ صرف یہ کہ مانا نہیں بلکہ پیغمبرؐ کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ اس وقت آپؐ نے ہجرت فرمائی اور کفّارِ قریش کو صاف صاف ’اے کافرو‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا گیا اور ان سے اور ان کے دین سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا۔ اسی ہجرت کے موقع پر یہ سورۃ نازل ہوئی جو قریش سے اعلانِ برأت بلکہ اعلانِ جنگ کی سورۃ ہے:
’’کہہ دو: اے کافرو! نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجنے والا ہوں جن کو تم نے پوجا۔ اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آرہا ہوں۔ تمھیں تمھارا دین اور مجھے میرا دین‘‘۔ (الکافرون: 1-6)

کافراور مرتکبِ کفر میں فرق
انبیائے کرام علیہم السلام یہ ساری احتیاط صرف اس حد تک برتتے ہیں۔ جہاں تک لوگوں کو کافر و مشرک قرار دینے کا معاملہ ہے، ان کے کافرانہ اور مشرکانہ اعمال کو کفروشرک قرار دینے میں انبیائے کرامؑ کبھی کوئی رعایت نہیں فرماتے۔ اس چیز میں اگر کسی وجہ سے وہ کوئی رعایت کرنا بھی چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور سخت سے سخت مخالف حالات کے اندر بھی ان کو یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی بات کو کفروشرک قرار دینے میں نہ وہ کسی خطرے کی پروا کریں اور نہ کسی مصلحت کا لحاظ کریں۔ اس کا سبب العیاذ باللہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ لوگوں کو کافرو مشرک قرار دینا چاہتے ہیں۔ لیکن محض فتنے کے اندیشے یا اس خیال سے کہ لوگ دعوت سے بدک جائیں گے، ایسا کرنے سے احتراز کریں۔

اس طرح کی مصلحت پرستی ان کے ہاں جائز ہوتی تو کفّار جس طرح کے سمجھوتے کی تجویز پیش کیا کرتے تھے وہ بڑی آسانی سے ان کو منظور کرکے سارا جھگڑا ختم کرسکتے تھے۔ لیکن معلوم ہے کہ کسی پیغمبر علیہ السلام نے بھی دین کے بارے میں کبھی اس طرح کی مصلحت کا لحاظ نہیں کیا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو کتنے ہی بڑے بڑے خطرات کا مقابلہ کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔ اس وجہ سے یہ سوال قابلِ غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ کفر وشرک کو کفر وشرک قرار دینے کے معاملے میں جو لوگ اتنے بے پروا اور اتنے بے خوف تھے، انھوں نے کفر وشرک کے مرتکبین کو کافر ومشرک قرار دینے میں اتنی احتیاط کی اور ان سے برأت اور علیحدگی کے اعلان میں اتنی دیر لگائی؟

اس فرق کی دو وجہیں
ہمارے نزدیک انبیائے کرام علیہم السلام، کفر وشرک کو کفر وشرک قرار دینے کے باوجود ان کے مرتکبین کو کفر وشرک قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت میں جو دیر لگاتے ہیں، اس کی دو نہایت اہم وجہیں ہیں:
پہلی وجہ: پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں کو جو کچھ سرزنش و ملامت ہے، وہ اتمامِ حجت اور تبلیغِ کامل کے بعد ہے۔ اگر اتمامِ حجت اور تبلیغ کے بغیر لوگوں پر گرفت یا ان سے اظہارِ بیزاری جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ انبیائے علیہم السلام کو مبعوث ہی نہ فرماتا۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ انبیائے کرامؑ لوگوں کو کافر قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت کرنے سے پہلے ان کو اتنا موقع دیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے۔ اور ان کے انکار کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی اور وجہ باقی نہ رہ جائے۔ یہ کام ایک مدت کی تبلیغ و تعلیم کا محتاج ہے۔

انبیاؑ کے وقفے کے زمانے میں جو تاریکی چھا جایا کرتی ہے، وہ اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس کے اندر خواص کو بھی راہِ حق سُجھائی نہیں دیتی، چہ جائیکہ عوام کالانعام۔ اس وجہ سے ہرگروہ تعلیم و تبلیغ کا محتاج ہوجاتا ہے۔ چونکہ تمام گمراہیاں باپ دادا کی روایات بن کر دلوں میں رچ بس جاتی ہیں، اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں کے اغراض بھی وابستہ ہوجاتے ہیں اس وجہ سے اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے مٹانے کے لیے ایک مدت تک جہاد کیا جائے۔ حضرات انبیائے کرامؑ پورے صبر واستقلال کے ساتھ ایک لمبی مدت تک اس جہاد میں سرگرم رہتے یہاں تک کہ حق اس قدر واضح ہوجاتا کہ ان لوگوں کے سوا جن کے باطل کے ساتھ اغراض وابستہ ہوتے تھے، کوئی ا س سے انکار نہیں کرسکتا۔ جب تبلیغ کا حق اس حد تک پورا ہوچکتا، تب انبیاؑ کے لیے یہ بات جائز ہوتی کہ وہ منکرین کے کفر وشرک کا اعلان کرکے ان سے علیحدہ ہوجائیں۔

دوسری وجہ:دوسری وجہ یہ ہے کہ جب پوری سوسائٹی کا نظام حق کی جگہ باطل کی بنیاد ہی پر قائم ہوکر چلنے لگ جاتا ہے تو اُن لوگوں کے لیے بھی حق کی پیروی ناممکن ہوجاتی ہے، جو حق کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت زندگی کے ہر گوشے میں فساد اس طرح گھس جاتا ہے کہ کسی محتاط سے محتاط آدمی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ وہ فساد کے کچھ جراثیم نگلے بغیر سانس لے سکے۔ ایسی صورت میں اگر اس مجبوری کا لحاظ کیے بغیر انبیائے کرامؑ لوگوں پر کفر وشرک کے فتوے جڑ کر ان سے برأت کا اعلان کردیتے تو یہ بہتوں پر نہایت شدید ظلم ہوتا۔ اس وجہ سے وہ تکفیر اور اعلانِ برأت سے اپنا کام شروع کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ایسا ماحول پیدا ہو کہ اس کے اندر اہل حق اپنے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔

یہ ماحول جب پیدا ہونے لگتا اور زندگی کی وہ راہ کھل جاتی، جس پر حق پرست چل سکتے ہوں، اگرچہ یہ (راہ) ابھی تنگ اور دشوار گزار ہی ہو۔ تب وقت آتا ہے کہ جو لوگ اس کو چھوڑ کر محض اپنی تن پروری اور جھوٹی نمایشوں کی خاطر باطل کی راہ پر بھاگے چلے جارہے ہیں، ان کے کفرکا بھی اعلان کردیا جائے اور ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جائے۔