مزید خبریں

بیوی کے ساتھ برتاؤ

اللہ کے رسولؐ زیارتِ قبور اور مْردوں کے استغفار کے لیے وقتاً فوقتاً قریب کے قبرستان ’جنۃ البقیع‘ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب آپ کی باری ام المومنین سیدنا عائشہؓ کے یہاں تھی، آپ نے رات میں وہاں جانا چاہا۔ آپ نے انتظار کیا، یہاں تک کہ جب آپ کو لگا کہ عائشہؓ سوگئی ہیں تو آپ انتہائی خاموشی سے اٹھے، چپکے سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے جوتا پہنا، تاکہ ذرا بھی آہٹ نہ ہو، دھیرے سے دروازہ کھولا، باہر نکلے، اتنی ہی آہستگی سے دروازہ بند کیا اور جنۃ البقیع کی طرف روانہ ہوگئے۔
روایت میں آگے اور بھی تفصیل ہے۔ اس میں ہے کہ سیدنا عائشہؓ نے آپؐ کو غائب پایا تو آپ کو تلاش کرنے نکل پڑیں۔ انھوں نے آپ کو جنۃ البقیع میں پایا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد آپ مڑے تو فوراً میں بھی مڑگئی، پھر مجھے لگا کہ آپ تیز تیز چلنے لگے ہیں تو میں نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی، پھر میں نے دیکھا کہ آپ دوڑنے لگے ہیں تو میں بھی آپ کے آگے آگے دوڑنے لگی۔ ابھی گھر میں داخل ہوکر میں بستر پر دراز ہی ہوئی تھی کہ آپ بھی تشریف لے آئے۔ سارا ماجرا آپ سمجھ گئے۔ آپ نے فرمایا: عائشہ! وہ سایہ تمھارا ہی تھا جو میرے آگے آگے چل رہا تھا…۔
(مسلم، نسائی)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے رات میں جنۃ البقیع جانے کے لیے اتنی رازداری کیوں برتی؟ اس کا جواب یہ ہے: محض اس لیے تاکہ بیوی کے آرام میں خلل نہ پڑے، اس کی نیند خراب نہ ہو اور وہ ادنی سی بھی اذیت محسوس نہ کرے۔
نبی کی اطاعت کا دم بھرنے اور اس کا اسوہ اختیار کرنے کا دعوٰی کرنے والوں سے سوال ہے: کیا ہم بھی اپنی بیویوں کا اتنا ہی خیال رکھتے ہیں؟ کیا ہم ان سے جتنی خدمت کی توقع رکھتے ہیں، اتنا ہی انھیں بھی آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟
اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جس کا سلوک اس کے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہو۔ اور میں گھر والوں کے ساتھ سلوک کے معاملے میں تم میں سب سے اچھا ہوں‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
اللہ کے رسولؐ نے جو فرمایا وہ کرکے بھی دکھایا۔ کیا ہمارا سلوک بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ ایسا ہی ہے؟