مزید خبریں

حیاتِ صدیق اکبرؓ کے چند روشن پہلو

22 جمادی الاخری افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا صدیق اکبرؓ کا یوم ِ وفات ہے۔ اس مناسبت سے کچھ تذکرہ اس عظیم المرتبت شخصیت کا کرتے ہیں اور ان کی حیاتِ مبارکہ کے چند پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، اگرچہ ان کی پوری زندگی ایمان وعمل کی ایک روشن اور تابناک زندگی ہے، اور ہر لمحۂ حیات قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے پیغام وسبق ہے۔

بلاشبہ سیدنا صدیق اکبرؓ ان مقدس ہستیوں میں سے ہیں جن کی زندگی کا ذکر اور ان کی یادیں حرارتِ ایمانی کا ذریعہ اور ولولہ اسلامی کے تازہ ہونے کا سبب ہے۔ نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کی جو بے مثال تربیت فرمائی اور ان کے ظاہر و باطن کو جن اخلاق سے آراستہ کیا تھا اس کا سب سے اعلی نمونہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ تھے، وہ خلق نبوی کے پیکر مجسم اور صفات محمدی کے مظہراتم تھے، اللہ تعالی نے آپ میں نبی کریمؐ سے عجیب مشابہت عطا فرمائی تھی، ابتدائے اسلام سے لے کر آخری سانس تک ان کی زندگی سیرتِ رسول اور تعلیمات رسولؐ کا جیتا جاگتا نمونہ تھی،

خدا کی رضا اور نبی کی مرضی کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا، اور رفاقت ِ نبیؐ کا سب سے زیادہ حق ادا کیا۔ آپ کی ہر ادا محبت ِرسول کی غماز ہوتی، اور منشائے نبی کو پوری امت میں سب سے پہلے سمجھنے والے، اور خدا کی سرزمین پر انبیا ے کرام کے بعد قیامت تک سب سے اونچا مقام ومرتبہ رکھنے والے سیدناابوبکر صدیقؓ ہی ہیں۔ وہ رفیقِ غار بھی ہیں اور غم گسا ر نبی بھی، سفر و حضر کے ساتھی بھی ہیں اور رمز ِ شناس ِ نبوت بھی، میدان دعوت سے لے کر میدان جنگ ہر موقع پر نبی کی محبت میں جان وتن لٹانے والے، اور حبِ رسول سے سرشار زندگی بسرکرنے والے ابوبکر صدیقؓ کی حیات مبارکہ کے بے شمار پہلوں انسانوں کے لیے سبق آموز اور عبرت خیز ہیں۔ دین و اسلام پر سیدنا صدیق اکبرؓ نے جس طرح خود کو ہمیشہ پیش پیش رکھا اور مال و جان کو جس نرالے انداز میں خدمت رسول میں پیش کیا وہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک لا فانی پیغام ہے، محبت رسول اور دعوائے عشق نبی کرنے والوں کے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر یقینا ایمان افروز ہو گا کہ ؎
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس
امت میں سب سے زیادہ رحم دل
نبی کریمؐ نے اپنے جاں نثار اور سچے فدا کار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بے شمار فضائل بیان فرمائے اور خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان کی تعریف و توصیف فرمائی، سیدنا ابوبکرؓ انتہائی رحم دل اور نرم مزاج تھے، ان کی اسی خوبی کو سرور دوعالمؐ نے بیان فرمایا کہ میر ی امت میں سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہے۔ (ترمذی :3752) اسی رحم دلی کے اثرات آپ کی پوری زندگی میں نمایاں تھے، انسانی ہمدردی و خیر خواہی، پریشان حالوں کی دست گیری، اور مجبوری ولاچاروں کی غم گساری میں آپ کی اس ممتاز صفت کا بڑا دخل ہے۔

نیکیوں میں سبقت کرنے والے
سیدنا ابوبکرؓ کو اللہ تعالی نے صحبت ِ نبوی کی برکت سے کچھ ایسے سانچے میں ڈھالا تھا کہ وہ ہر وقت نیکیوں کی سبقت اور نیک کاموں کے انجام دینے میں کوشاں رہتے۔ ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے نماز کے بعد صحابہ کرامؓ سے پوچھا: آج کون روزے سے ہے؟ تمام صحابہ میں سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: اے اللہ کے رسولؐ! میں روزے سے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: آج کس نے مریض کی عیادت کی ہے؟ پورے مجمع میں سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: یارسول للہ! میں نے ابھی مسجد آتے ہوئے راستے میں عبدالرحمن ابن عوفؓ کی مزاج پرسی کی ہے۔ آپؐ نے سوال کیا کہ آج تم سے کس نے صدقہ کیا ہے؟ اس مرتبہ سیدنا ابوبکرؓ ہی نے کہا: اے رسول اللہ: میں مسجد میں داخل ہو رہا تھا کہ ایک سائل نے مانگا تو میں نے اپنے بیٹے عبدالرحمن بن ابوبکر کو روٹی کا ٹکڑا دے آیا کہ اس کو پہنچادے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: تم کو جنت کی خوش خبری ہے، تم کو جنت کی خوش خبری ہے۔ اس موقع پر سیدنا عمرؓ نے فرمایا: میں نے کبھی کسی نیک کام میں ابوبکرؓ سے سبقت نہیں کی وہی آگے رہے۔ سیدنا علیؓ نے کہا: وہ بہت زیادہ سبقت کرنے والے ہیں، خدا کی قسم ہم کبھی ابوبکرؓ سے آگے سبقت نہیں کرسکے۔ (العبقریات الاسلامیہ للعقاد :2/200) ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے فرمایا: جو شخص کسی چیز کا ایک جوڑا اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرے گا وہ جنت کے دروازوں سے یوں بلایا جائے گا: اللہ کے بندے! (اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجاکیوں کہ) یہ دروازہ بہتر ہے۔ جو شخص نمازی ہوگا وہ ’’باب الصلاۃ‘‘ سے بلایا جائے گا، جو شخص اہل جہاد سے ہوگا وہ ’’با ب الجہاد‘‘ سے بلایا جائے گا، جو شخص صدقہ وخیرات کرنے والوں میں ہوگا اسے’’ باب الصدقہ‘‘ سے بلایا جائے گا، جو شخص روزے داروں میں ہوگا وہ ’’باب الصیام‘‘ یا ’’باب الریان‘‘ سے بلایا جائے گا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ رسولؐ نے فرمایا: ہاں اور اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم بھی انہی میں ہوگے۔ (سیدنا صدیق اکبرؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات:147)

راہ ِ خدا میں خرچ کرنا
سیدنا صدیق اکبرؓ عرب کے ممتاز تاجرین اور صاحبِ ثروت لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، قبولِ اسلام سے قبل ہی پاکیزہ اخلاق اور عمدہ اوصاف سے اللہ تعالی نے نوازا تھا، اور جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور ایثار و ہمدردی کی ہدایات ملیں تو وہ جذبۂ سخاوت مزید پروان چڑھا اور اسلامی تاریخ میں آپ کی سخاوت اور فیاضی ایک ضرب المثل بن گئی۔ آپؐ نے خدا کی راہ میں اپنا مال و متاع سب کچھ قربان کیا اور ہمہ وقت اشارۂ نبوی کے منتظر رہتے اور جیسے ہی حکم نبی ہوتا اپنا مال سب سے پہلے پیش فرماتے۔ آپؐ نے جس بے لوث انداز میں اپنے مال کو خرچ کیا اور اور منشائے نبوی کے مطابق حاضر کیا خود اس کی تائید کرتے ہوئے نبی کریمؐ نے اپنی وفات سے کچھ دنو ں قبل فرمایا: مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر ابوبکر نے اپنی صحبت اور مال سے ممنونِ احسان کیا ہے، اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا، لیکن ہمارا باہمی تعلق اسلامی بھائی چارے اور محبت کا ہے۔ (بخاری :499)

ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ آبدیدہ ہوگئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں اور میرا مال سب کچھ آپ ہی کا تو ہے۔ (مسند احمد :7264) سیدنا ابوبکرؓ نے جب اسلام قبول کیا تھا اس وقت وہ چالیس ہزار درہم کے مالک تھے، اور جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ جانے لگے تو آپ کے صرف چار ہزار درہم رہ گئے تھے، تما م مال اللہ کے راستے میں، غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کیا۔ (تاریخ الخلفاء :34) سیدنا ابوبکرؓ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کے منتظر رہتے، ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے صحابہ کو صدقہ کا حکم دیا۔ سیدنا عمرؓ کے پاس اس وقت معمول سے زیادہ سرمایہ موجود تھا، انہوں نے خیال کہ یہ موقع ہے کہ میں ابوبکرؓ سے خیرات میں سبقت کروں۔ وہ نصف سرمایہ خدمت اقدس میں لے آئے، نبی کریمؐ نے دریافت کیا کہ اہل و عیال کے لیے کتنا چھوڑا؟ عرض کیا کہ اسی قدر۔ اتنے میں یار ِ غار، عاشق جاں نثار سیدنا ابوبکرؓ بھی اپنا کل سرمایہ لے کر حاضر ہوگئے۔ نبی کریمؐ نے پوچھا: گھر والے کے لیے کیا چھوڑا؟ انہوں نے عر ض کیا: ان کے لیے خدا اور اس کا رسول ہے۔ جب یہ بے مثا ل جذبۂ ایثا ر دیکھا تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اب میں کبھی ان سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔ ( خلفائے راشدین :35)

غلاموں کو آزاد کرانا
اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر نہایت درد ناک سلوک کیا جاتا اور خاص کروہ حضرات جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ان پر تو آلام و مصائب کے پہاڑ توڑے جاتے اور سفاکیت کا معاملہ کیا جاتا، ان کس مہ پرسوں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے اور ان مظلوں کو ظلم و جبر کے پنجہ استبداد سے آزاد کروانے میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکرؓ آگے بڑھے اور اپنے مال کو لٹا کر ان کو رہائی دلوائی۔ آپ کے آزاد کردہ غلاموں میں سیدنا بلال، سیدنا عامر بن فہیرہ، سیدنا ابوفکیہ، سیدہ لبینہ، سیدہ زنیرہ، سیدہ نہدیہ اور ام عبسؓ کے نام شامل ہیں۔ ان غلاموں کے آزاد کرانے سے اسلام کو جو تقویت ملی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ نے لکھا: اسلام اس وقت حد درجہ غریب اور بے برگ ونوا تھا، ایک طرف ان غلاموں کے استقلال اور ان کی پامردی نے مکہ کی سر زمین میں اسلام کے قدم جمائے تو دوسری جانب سیدنا ابوبکرؓ نے اللہ کی راہ میں دولت خرچ کرکے ان قدموں میں توانائی اور مضبوطی پیدا کی۔ (صدیق اکبر:39) غلامو ں کو آزاد کرانے میں سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے مال کا بڑا حصہ لگا اور صرف ان کو ظلم سے راحت دلانا اور اللہ تعالی کی رضا حا صل کرنا مقصود تھا۔ ایک مرتبہ آپ کے والد ابو قحافہ نے کہا: ابوبکر تم زیادہ تر عورتوں اور ان میں بھی بوڑھیوں کو خرید کر آزاد کرتے ہو، بھلا یہ تمہارے کس کام آئیں گی۔ اگر ان کے بجائے تم تندرست وتوانا غلا م مردوں کو خرید کر آزاد کرو تو کبھی وقت پڑنے پر وہ تمہاری مدد بھی کرسکتے ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: ابا! میں تو یہ سب کچھ انعام ِخداوندی حاصل کرنے کے لیے کرتا ہوں۔ (تاریخ الخلفا ء للسیوطی:41)