مزید خبریں

صارفین کی قوت خرید کم ہوگئی‘ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا استعمال بڑھ گیا

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی ) صارفین کی قوت خرید کم ہوگئی‘ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا استعمال بڑھ گیا‘ مصروفیات میں اضافے اور معیاری ادب کے تخلیق نہ ہونے سے مطالعہ کا رحجان کم ہوا‘ لوگ اب کتب خانوں میں جا نے کے بجائے انٹرنیٹ پرکتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ کتاب لکھ کر ہماری سوچ کو جلا بخشنے والے کو ہم نے ہیرو ماننے سے انکار کر دیا ‘ ڈیجیٹل لائبریری سسٹم کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار معروف شاعر افتخار عارف، بحریہ کالج کی وائس پرنسپل سیدہ اسما بخاری، جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی اور ممتاز کالم اور مضمون نگار انوار حیدر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں مطالعہ کا رحجان کیو ں کم ہو رہا ہے؟‘‘ افتخار عارف نے کہا کہ کتاب سے دور ہونے کی ایک وجہ اسکول اور کالج کی سطح پر طالب علموں کو نصابی کتب کے علاوہ ادب اور شخصیت سازی میں مدد دینے والی کتابوں کے مطالعے کی طرف مائل نہ کرنا بھی ہے‘ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھنے کا رواج سننے اور دیکھنے کے مقابلے میں کم ہو گیا ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہو گئی ہو۔ ان کے خیال میں اردو ادب اب بھی پڑھا جا رہا ہے لیکن وہ عام آدمی کے ہاتھ سے اس لیے نکل گیا ہے کہ کمپیوٹر کے اس نئے دور میں اس کی دلچسپیاں بدل گئی ہیں جن میں سب سے پہلے ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج، انسانی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘ کمرشلائزیشن، تیز رفتار طرز زندگی اور معیاری ادب کا تخلیق نہ ہونا بھی شامل ہیںیہ درست ہے کہ انٹر نیٹ نے تیز ترین معلومات فراہم کرنے کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی ذخائر جو پہلے کبھی لائبریوں میں ہوا کرتے تھے اب سرچ انجنز کے ذریعے ان تک رسائی بہت آسانی سے ہو جاتی ہے‘ کتاب معیاری ہو یا غیر معیاری ، دونوںصورتوں میں اس کی تشہیر بہت ضروری ہے۔ نئے دور کے نئے تقاضے ہیں اور اسی لیے اب تشہیر کے انداز بھی بدل گئے ہیں اور اب ہمارے شاعر اور ادیب کتاب کے ساتھ آڈیو اور وڈیو سی ڈی بھی رکھنے لگے ہیں جس میں قارئین ان کی شاعری یا نثر کے نمونوں سے خود ان ہی کی آواز میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ایک اور سبب یہ ہے کہ کتاب چھاپنے والے یعنی پبلشرز خود تو ٹھیک ٹھاک پیسہ بنا لیتے ہیں لیکن وہ کتاب قاری تک پہنچانے میں اپنے فرائض پوری طرح انجام نہیں دیتے یعنی کتاب کو ملک بھر کے بک اسٹالز تک پہنچانے کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کرتے جس کے نتیجے میں مطالعہ کے شوقین کو نئی شائع ہونے والی کتابوں کے بارے میں علم نہیں ہو پاتا۔ سیدہ اسما بخاری نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مطالعہ کے رجحان میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے تاہم انٹرنیٹ پر کسی حد تک کتب بینی میں اضافہ ہوا ہے‘کتب بینی کی جگہ اب انٹرنیٹ نے لے لی ہے‘ لوگ اب کتب خانوں میں جا کر کتابیں، رسائل و ناول پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ لوگوں کو گھر میں بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے تمام نئی اور پرانی کتابیں حاصل ہو جاتی ہیں‘ طالب علم کمپیوٹر پر یونیورسٹی و کالج کی اسائنمنٹس بناتے ہیں اور پھر ای میلز، واٹس اپ یا دیگر انٹرنیٹ ذرائع سے ایک دوسرے کو ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے پہنچا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ مطالعے میں کمی کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا رجحان اور لائبریریوں کے لیے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے‘ گھروں میں کتابوں، رسالوں اور اخباروں کا مطالعہ نہ کرنے کا رواج نوجوانوں پر برا اثر مرتب کرتا ہے‘ کتاب ہمار ی زندگی سے تیزی کے ساتھ نکلتی جا رہی ہے جس کو معاشرے اور زندگی میں واپس لانے کی ضرورت ہے‘ کتاب زندگی میں 2 طرح سے لائی جا سکتی ہے‘ پہلا علم کی طلب اور دوسرا کسی کے مشورے سے۔ جب رائے عامہ پیدا کرنے اور بنانے والے کتاب کو متعارف کرواتے ہیں تو معاشرے میں کتاب پڑھنے کا کلچر پیدا ہوتا ہے‘ جب تک جستجو نہ ہو‘ سوال نہ ہو‘ تب تک دنیا کی بہترین کتاب بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی‘ جو دانشور سوچ پیدا کرنا اور سوچنا سکھاتا ہے‘ ہم نے اس کی قدر کرنا چھوڑ دی ہے‘ ہمارے یہاں کتاب پڑھنے، کتاب پروموٹ کرنے اور کتاب لکھنے والے کو عزت دینے کا کلچر نہیں ہے جس نے ہماری سوچوں کو جلا بخشی ہے‘ہم نے اس کو ہیرو ماننے سے انکار کر دیا ہے جس کا لامحالہ وہی نتیجہ نکلا جو منطقی طور پر نکلنا چاہے تھا یعنی معاشرے میں مطالعہ کے رحجان میں کمی ہوئی‘ اب کتاب چھاپنے والا، کتاب لکھنے والا پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ کتا ب پڑھنی چاہیے مگر اب پڑھنے والوں کی تعدادمیں کمی آچکی ہے۔ انوار حیدر نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کتب بینی اور مفید و معلوماتی خزانے سے استفادہ کرنے کی شرح بہت کم ہے جس کی ایک بڑی وجہ کم شرحِ خواندگی، صارفین کی کم زور قوّتِ خرید اور انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ دوسری طرف کاغذ کی قیمت بڑھنے کے بعد کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے ‘جب کہ سرکاری لائبریریوں کا حال سبھی جانتے ہیں۔ حکومتی سطح پر کتب بینی کے فروغ کی کوششیں نہ کرنا، مصنفین اور پبلشرز کی حوصلہ افزائی نہ ہونے، انہیں سہولیات اور وسائل کی عدم فراہمی بھی مطالعے کے رجحان میںکمی کا سبب ہے‘ موجودہ دور میں تفریح کے لیے انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھی کتاب اور مطالعے کے شوق پر اثر ڈالا ہے۔ ملک میں لائبریریوں کا قیام اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے مناسب اور ضروری وسائل کی فراہمی پر حکومت کو توجہ دینا ہو گی‘اساتذہ اور والدین بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں‘ اسکول اور کالج کی سطح پر اساتذہ اور گھروں میں والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرکے معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں‘ مطالعہ انسانی ذہن کی بند گرہ کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں خصوصاً نوجوانوں کو کارآمد اور ہونہار بناتا ہے‘ موجودہ دور میں انٹرنیٹ پر اور ڈیجیٹل لائبریریوں کی شکل میں کتابیں پڑھی جا رہی ہیں لیکن کتب بینی کی اس شکل کو بھی تحریک دینے اور اسے زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔