مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

خدا کا وجود
انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہ پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ آثارِکائنات پر غور کر کے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’علم‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’علم‘ کی حد تک پہنچا سکے۔
٭…٭…٭
جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’علم‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلند وبرتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’زندگی‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس دان کہتے ہیں کہ اسی نے مادہ کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’کیوں‘ اور ’کیسے‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غور وفکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کے بجاے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔ یہ سوال تو بے شک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں، اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں، اور اس کے ساتھ ہمار ے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی راے اختیار کرنا ضروری ہے۔کیونکہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے۔ اور اس معاملے میں ایک راے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔
٭…٭…٭
آپ کا دوسرا سوال کہ ’’انسان کو انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے‘‘ ایسا نہیں ہے کہ اس کا جواب ایک خط میں دیا جاسکے۔ میں اپنی کتابوں میں اس کے مختلف پہلوئوں پر مفصل لکھ چکا ہوں۔ آپ ان کو ملاحظہ فرمائیں۔ مثلاً اس کے لیے میرے مضامین سلامتی کا راستہ، اسلام اور جاہلیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر اور دین حق کا مطالعہ مفید رہے گا۔ نیز رسالہ دینیات سے بھی آپ کو اس معاملے میں کافی رہنمائی حاصل ہوگی۔ (رسائل و مسائل، دوم)