مزید خبریں

زرعی شعبے میں قرض پر گورنر جمیل کی تجاویز لیکن کھاد کے مسائل کا حل ؟

گورنر بینک دولت پاکستان جمیل احمد نے شعبہ زراعت کو، جوملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے، مستحکم بنانے اور اس کی نمو کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ زرعی قرضے کی مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کا سالانہ اجلاس لاہور میں گزشتہ روز منعقد ہوا جس کی صدارت کے دوران گورنر نے بینکوں پر زور دیا کہ کاشت کاروں کے لیے کریڈٹ، ڈپازٹس، ادائیگیوں وغیرہ سمیت تمام مالی خدمات تک آسان، بروقت اور ہموار رسائی کو یقینی بنائیں۔لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق بینکوں کے زرعی قرضوں سار ا فائدہ صرف اور صر ف بڑے کاشتکاروں کو ہو تا جس طرح صنعتی قرضوں میں زیادہ تر فوائد بڑے صنعتکاروں کو ہو تا ہے۔اس سلسلے میں اسمال انڈسٹریز کی ترقی کی باتیں صرف حکمرانوں ایف پی سی سی آئی ،بڑی تجارتی انجمنوں اور چیمبرز آف کامرس تک محدود رہتا ہے

گورنر نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ سیلاب سمیت مختلف مشکلات کے باوجود مالی سال 23ء کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم سال بسال 25.2 فیصد نمو کے ساتھ 1776 ارب روپے کی متاثر کن سطح تک پہنچ گئی۔بینکوں کا مجموعی ہدف 1819 ارب روپے کے قرضے جاری کرنا تھا تاہم انہوں نے 97.6 فیصد ہدف پورا کیا۔انہوں نے بینکوں، اسپیشلائزڈ بینکوں، مائکرو فنانس بینکوں اور مائکرو فنانس اداروں کی مربوط کاوشوں کوسراہا جن کی بنا پر یہ کامیابیاں حاصل ہوئیں اور یہ ثابت ہوا کہ اس شعبے میں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی مضبوطی اور لچک موجود ہے۔ گورنرجمیل احمد نے زرعی شعبے میں مضبوط بحالی کے لیے بھی امید کا اظہار کیا، جس سے مالی سال 24ء کے لیے تخمینہ کردہ 2 سے 3 فیصد تک حقیقی جی ڈی پی نمو کی راہ ہموار ہوگی۔ مالی سال 24ء کے لیے قرضوں کی تقسیم کا ہدف 2250 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جو گذشتہ برس تقسیم کیے گئے قرضوں سے 26.7 فیصد زائد ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جولائی تا اکتوبر 2023ء کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم میں 30 فیصد کی شاندار نمو ہوئی ہے جس سے امید ہے کہ ہم اپنا ہدف با آسانی حاصل کرلیں گے۔ انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ نہ صرف ہدف پورا کرنے بلکہ اس سے آگے بڑھنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔

گورنر جمیل احمد نے درپیش چیلنجوں، بالخصوص قرض گیروں کی تعداد میں کمی کا اعتراف کرتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیاکہ زرعی قرض گیروں کی تعداد میں پائیدار اضافے کے لیے منصوبے اور حکمت عملی کی تیاری میں اسٹیٹ بینک ہر بینک کے ساتھ انفرادی طور پر رابطہ رکھے گا۔ گورنر نے بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ زرعی قرضے کی نہ صرف اپنی استعداد بڑھائیں بلکہ زراعت اور دیہی قرضوں کی رسائی بڑھانے کے لیے مائکرو فنانس اداروں کے ساتھ بھی اشتراک کریں۔انہوں نے کاشت کاروں کی پیداواری صلاحیت بہتر بنانے کی اہم ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کاشت کار بینکوںکے لیے بہتر اور مناسب قرض گیر طبقہ بن سکیں۔
اس سلسلے میں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ زراعت کے تکنیکی اداروں، زرعی یونیورسٹی، صوبائی زرعی محکموں اور دیگر زرعی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون اور اشتراک کریں تاکہ معیاری خام مال کی فراہمی، کاشتکاری کے بہتر طریقوں اور زرعی ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے ذریعے کاشت کاروں کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکے۔ چھوٹے کاشت کاروں کو بھی ان کی پیداوار کی فروخت میں سہولت دینے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنی پیداوار پر مارکیٹ کی مسابقتی قیمت مل سکے اور بینک انہیں بڑے اور معروف خریداروں سے جوڑ سکیں۔ زراعت ایک اہم شعبے ہے اور اس کی ترقیاتی قرضوں کے فروغ کے لیے فوری متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، خاص طور پر زرعی شعبے میں مشینوں کے استعمال کے لیے اضافہ کی فوری ضرورت ہے ۔

گورنر نے بینکوں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ زرعی خدمات کی فراہمی کے اداروں کو قرضے دینے کی فیزیبلٹی کا جائزہ لیں۔ یہ ادارے کسانوں کو کرایہ پر زرعی مشینری اور آلات دیتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی کمزور حالت کا ذکر کرتے ہوئے گورنر نے اسٹیٹ بینک کے ماحول دوست (گرین) اقدامات پر متوجہ کیا جن میں ماحولیاتی اور سماجی رسک مینجمنٹ امپلی منٹیشن مینوئل، قابل تجدیدتوانائی کے لیے قرضہ اسکیم اور ماحول دوست بینکاری ہدایات شامل ہیں۔ انہوں نے بینکاری صنعت پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے سرگرمی سے کام لیتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی سے سامنے آنے والے خطرات کو کم کرنے کے آلات اور بیمہ اسکیموں پر متوجہ ہو اور بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کے ساتھ اشتراک کر ے۔گورنراسٹیٹ بینک نے زرعی قرضے کے شروع سے آخر تک خود کار ایکو سسٹم کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ خاص طور اس سلسلے میں ایف پی سی سی آئی کے صدارتی امیدوار عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ یوریا کا مارکیٹ سے غائب ہو جانا افسوسناک ہے۔زخیرہ اندوزمنافع کی خاطر کروڑوںکسانوں کے مسائل بڑھا رہے ہیںجبکہ زرعی و صنعتی پیداوار کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ملک کے مستقبل سے کھیلنے والے منافع خوروں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔

یہ ایک عجیب سلسلہ ہے اور اس پر کھاد تیاری کر نے والی کمپنیز کے خلاف کبھی کچھ نہیں ہو تا ہے ۔ہر سال گندم کی کاشت کا سیزن شروع ہوتے ہی یوریا کھاد مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے اور کاشتکاروں کو اسے بلیک مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔ یوریا مہنگی ہونے کی وجہ سے اسکا استعمال کم ہو جاتا ہے جس سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اور حکومت کو بھاری زرمبادلہ خرچ کر کے گندم درامد کرنا پڑتی ہے۔اس وقت ملک بھر میں کاشتکار سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور غذائی صورتحال متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس لئے ملک کو فوڈ سیکورٹی کے بحران کی طرف دھکیلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ڈسٹری بیوٹرز اور ڈیلرز کو لوٹ مار سے روکنا ضروری ہے جس کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔مقامی پیداوار میں کمی کے باوجود یوریا کو درامد نہیں کیا جا رہا ہے جو حیران کن ہے۔ ملک میں کھاد کی بلیک مارکیٹ کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے، من مانی قیمتوں کے تعین اور بلیک ا سمگلنگ کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔گیس بحران کے سبب مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے اس وقت ملک میں یوریا کا شارٹ فال پانچ لاکھ ٹن ہے ۔گزشتہ سال کی طرح درآمدات قیمتوں میں استحکام اور طلب اور رسد کو متوازن کرنے کے لئے ضروری ہیں ماضی کی غلطیوں کو مسلسل دہرانے کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ زرعی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے اور گندم درامد کرنے کا سلسلہ روکا جا سکے۔

یہ بات فوری طور پر نظر آرہی ہے کہ ملکی معیشت کے استحکام کا سفرجاری ہے تاہم قرضوں کی ادائیگی کا خاطرخواہ انتظام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی وغیرملکی اداروں میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ سکے۔ مالی، مالیاتی، بیرونی اور صنعتی شعبوں میں بہتری آرہی ہے خسارہ کم ہو رہا ہے زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش ہیں اور کرنسی مستحکم ہورہی ہے تاہم برآمدات اور ترسیلات زرکو بڑھانے کی ضرورت ہے ورنہ مالیاتی خسارہ اپنی جگہ پر موجود رہے گا۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی وجہ سے گورننس اور سماجی بہبود کے معاملات بہترہورہے ہیں تاہم اصلاحات اور نجکاری کی رفتار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایس آئی ایف سی میں فوج کی شمولیت سے پالیسی کے تسلسل اوراستحکام کو یقینی بنانے میں مدد ملی ہے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ، چین، یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس وقت اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال بھی اطمینان بخش ہے اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی مشکلات سے نکل رہا ہے۔ زرعی شعبہ بھی بہترہورہا ہے محصولات بڑھ رہے ہیں اور غیرضروری اخراجات کم کئے جارہے ہیں۔ غیر ضروری درآمدات سے خسارہ بڑھتا ہے اور کرنسی کی قدرکم ہوجاتی ہے اس لئے اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی ہے جس سے انے والے دنوں میں قیمتوں میں کمی بھی ممکن ہے۔ روپے کی قدر بہتر ہونے سے مالیاتی پوزیشن میں بہتری آئی ہے جس سے قرضوں کے بوجھ کم اور ترقیاتی اخراجات کے لیے مالی گنجائش پیدا ہورہی ہے۔ میاں زاہد حسین نیمزید کہا کہ ان تمام مثبت انڈیکیٹرز کے باوجود بعض ادارے پاکستان کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کی استعداد کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار کررہے ہیں۔ اسی طرح بعض ادارے سیاسی صورتحال کے بارے میں تشویش ظاہر کررہے ہیں جس کے نتیجے میں نئے معاشی چیلنج کھڑے ہوسکتے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے مطمئن ہیں اور آئی ایم ایف سے دوسرے معاہدے کی صورت میں نہ صرف ملکی مشکلات کم ہوجائیں گی بلکہ پاکستان کی عالمی درجہ بندی بھی بہتر ہوجائے گی جس سے سستے قرضوں کا حصول ممکن ہو سکے گا۔

اس سلسلے میں ضروری ہے توانائی کی ضرورت کو فوری حل کیا لیکن اس کے بر عکس توانائی ڈویژن کے تحت چلنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے نیپرا کی حالیہ تفتیشی رپورٹ میں نشاندہی کیے جانے والے بلنگ میں تضادات کا اعتراف کیا، لیکن ساتھ ہی صارفین کے ساتھ ہونے والی غلطیوں کی تعداد کم بتاتے ہوئے اسے قدرتی، انسانی اور تکنیکی عوامل سے منسوب کر دیا۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ ابتدائی ردعمل توانائی ڈویژن کی جانب سے سابق سیکریٹری توانائی عرفان علی کی زیر قیادت ’آزاد کمیٹی‘ کی تشکیل کے کئی دن بعد سامنے آیا تاکہ نیپرا کی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد اور طریقے کار کا جائزہ لیا جاسکے، جس میں میٹر ریڈنگ، بلنگ، ناقص میٹرز اور تمام ڈسکوز میں اصلاحاتی طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں پائی گئی تھی۔اس بات کی تصدیق کی کہ نیپرا کی جانب سے کی گئی مجموعی کارروائی معقول ہے، اور اس وجہ سے ابتدائی ریگولیٹری سماعت کے بعد زیادہ شکایتوں کے جائزے، صارفین کے خدشات کو دور کرنے اور ڈسکوز کے علاقائی دفاتر کے دوروں کے لیے انکوائری کمیٹی کی تشکیل ہی تفصیلی تحقیقات کو یقینی بنانے کاصحیح طریقہ ہے۔ ملک کی معا شی ترقی کے لیے اب بھی یہی ضروری ہے کہ ہر طرح کی بدعنوانیوں کے لیے حکومتی سطح پر خاتمہ کا عزم کی اجائے جس کی کمی نے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیاہے ۔
nn