مزید خبریں

رحمت اور نماز

سیدنا جریر بن عبداللہ بَجلیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا: اللہ اُن لوگوں پر رحم نہیں کرے گا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ کی انسانوں پر رحمت کی کیا شان ہے! جو انسان، اللہ کی رحمت سمیٹنا چاہتا ہے، وہ انسانوں پر رحم کرے۔ اگر لوگوں پر رحم نہیں کرے گا تو اللہ بھی اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔
ایک موقع پر جب نبیؐ کو آپؐ کی بیٹی نے بلایا کہ ’’تشریف لائیں، میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں ہے‘‘۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا: بیٹی: ’’اللہ ہی کی مِلک میں تھا، وہ جو اس نے دیا تھا، اور جو اس نے لے لیا وہ بھی اسی کی مِلک میں ہے۔ مالک جو چاہے کرے اورہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ صبر کر اور ثواب حاصل کر‘‘۔
بیٹی کو جب یہ پیغام ملا تو انھوں نے آپؐ کو پھر بلایا کہ ’’آپؐ ضرور آئیں‘‘۔ اس پر آپؐ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس وقت کچھ صحابہ کرامؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ جن میں سیدنا سعد بن عبادہؓ، زید بن ثابتؓ اور معاذ بن جبلؓ شامل تھے۔ آپؐ نے نئی چادر منگوائی، اُوڑھی اور چل پڑے۔

آپؐ بیٹی کے گھر پہنچے۔ نواسے کو گود میں لیا وہ آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کا سینہ اس طرح کھڑکھڑ کر رہا تھا جس طرح خشک مشک کے اندر تھوڑا سا پانی ہو اور اسے ہلایا جائے تو کھڑکھڑ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس پر نبیؐ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسولؐ اللہ! آپؐ بھی رورہے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں پر رحم کرتے ہیں جو اس کے بندوں پر رحم کرنے والے ہوں۔ یہ بھی بخاری شریف کی روایت ہے۔

یعنی یہ تو رحمت ہے جو اللہ نے مومن کے دل میں رکھی ہے۔ یہ کوئی نوحہ تو نہیں ہے، نوحہ منع ہے۔ اگر قدرتی طور پر، غیراختیاری طور پر آنکھوں سے آنسو نکل آئیں، تو یہ ایک فطری چیز ہے اور جس کی ممانعت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آدمی کا دل سخت نہیں ہے بلکہ نرم ہے اور نرم دلی، اللہ کو پسند ہے۔ قساوت ِ قلب اور سنگ دلی اللہ کو پسند نہیں ہے۔
ہمارا دین تو ہے ہی دین رحمت۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اور محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ، سرور عالم، رحمۃ للعالمین ہیں۔ ہر نبی ؑ اپنے زمانے میں رحمت لے کر آتا ہے۔ اللہ کا دین رحمت ہے۔ ہر دور میں جو نبی آیا وہ رحمت لے کر آیا۔ وہ اپنے زمانے کے لیے رحمت تھا اور احمد مجتبیٰ، سرور عالم، خاتم الانبیا ہیں۔ آپؐ کا وجود سراپا رحمت ہے، انسانوں کے لیے، جنوں کے لیے اور فرشتوں کے لیے۔ پوری کائنات کے لیے آپؐ رحمت ہیں۔

ہمیں نبیؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور دین رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں تک پہنچنا ہے اور گھرگھر اس رحمت کو جو اللہ نے ہمار ے حوالے کی ہے، یعنی قرآن وسنت کی دعوت کو پھیلانا اور پہنچانا ہے۔ گھرگھر، بستی بستی اور شہرشہر اس دعوت کو لے کر پہنچنا ہے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف اُٹھانی ہیں۔ اُس زمانے میں تو بہت زیادہ تکالیف اور اذیتیں دی جاتی تھیں۔ مبلّغین اور دین کے داعیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ آج تو اللہ کا فضل ہے اور ہمیں آسانیاں میسر ہیں۔ لہٰذا، ان آسانیوں سے فائدہ اُٹھا کر پہلے مرحلے پر پورے پاکستان کو اوردوسرے مرحلے پر پوری دُنیا کو دین کے لیے کھڑا کرنا ہے۔ تمام مسلم ممالک میں جب اسلامی نظام قائم ہوجائے گا تو پھر اسلام اور کفر کا آخری معرکہ برپا ہوگا اور کفر شکست سے دوچار ہوگا۔ جب اللہ کے بندے اللہ کے دین کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ہرطرف سے دین کا جھنڈا سربلند ہوگا، تو کفر سرنگوں ہوجائے گا۔ ہم آخری مرحلے کی تمہید ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس تمہید کا حق ادا کریں۔

آسان حساب
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ کو نماز میں پڑھتے ہوئے سنا کہ آپؐ یہ دُعا کر رہے ہیں:اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَابًا یَّسِیرًا، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لے‘‘۔جب آپؐ نے سلام پھیرا تو میں نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! حسابِ یسیر کیا ہے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: حسابِ یسیر یہ ہے کہ انسان کا اعمال نامہ دیکھا جائے اور پھر اس سے درگزر کیا جائے۔ اس سے پوچھ گچھ نہ کی جائے اور کہا جائے کہ تمھارا اعمال نامہ دیکھ لیا ہے، تمھاری پیشی ہوگئی ہے، تم جنّت میں چلے جائو۔ اس دن جس آدمی سے پوچھ گچھ کی گئی تو اے عائشہؓ! وہ تو مارا گیا۔ پھر اس کی خیر نہیں ہے۔ (مسند احمد)
بخاری شریف میں ہے کہ جس کا حساب لیا جائے گا تو اسے عذاب دیا جائے گا۔
سیدہ عائشہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا: ’’حساب یسیر لیا جائے گا؟‘‘ جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تواس کا حساب آسان ہوگا۔
آپؐ نے فرمایا: جس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا تو، اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ یہ تو صرف پیشی ہے۔ جس سے مناقشہ کیا گیا، پوچھ گچھ کی گئی تو پھر اس کی خیر نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سے آسان حساب لے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض ادا کریں اور منکرات سے بچیں۔ اپنی اولاد کو بھی نماز کی پابندی اور باقاعدگی سے نصیحت کریں اور مساجد میں ساتھ لائیں۔