مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ

توبہ
اللہ تعالیٰ ہر اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس پر ایک مومن سچّے دل سے نادم ہو کر تائب ہو اور پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے۔ توبہ کے ساتھ ساتھ اگر آدمی راہِ خدا میں کچھ صدقہ بھی کرے یا اللہ کی راہ میں کوئی قربانی اس نیت سے کرے کہ اللہ اپنی رحمت سے اس کا گناہ معاف فرما دے، تو یہ چیز توبہ کی قبولیت میں اور زیادہ مددگار ہوتی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اور آپ کو استقامت بخشے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر 1962ء)
٭…٭…٭

غلط کام پر کوفت کا احساس
یہ کوئی بیماری نہیں ہے، جس کا علاج کیا جائے، یہ تو تندرستی کی علامت ہے۔ اگر کسی شخص کے نماز نہ پڑھنے پر آپ کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو خطرہ یہ ہے کہ ایک روز آپ خود بھی نماز چھوڑ بیٹھیں گے۔ اس کی تکلیف تو کم از کم آپ کو محسوس ہونی ہی چاہیے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ کو اسے تلقین کرنی چاہیے اور اسے اس کا فرض یاد دلانا چاہیے۔ البتہ، غصے اور کوفت کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ اس کو صبر سے سمجھائیں اور تلقین کریں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ آگے بڑھ کر اس سے اُلجھ پڑیں، تو یہ ایک غیرحکیمانہ فعل اور غلط قسم کا غصّہ ہوگا۔ تاہم، یہ بات واضح رہے کہ میں ہر غصے کو حلال بھی نہیں کہہ رہا ہوں۔ البتہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کا غصہ آپ کو نہ آئے تو یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔
٭…٭…٭

رزق کی کمی و بیشی
رزق کی کمی و بیشی، اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ اس کی رضا سے۔ مشیت ِ الٰہی کے تحت اچھے اور بُرے، ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پارہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اُس کا مغضوب ہے۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اُٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔
لہٰذا، وہ شخص سخت گمراہ ہے جو مادّی فوائد و منافع کو خیروشر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دُنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو، اور اس کے ساتھ دُنیا کی نعمتوں سے نوازا جارہا ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت بازپُرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہورہا ہے۔

رازق، صانع، مُوجد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ہیں، جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں، مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ’خیرالرازقین‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں، اُن سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ ہے۔(ترجمان القرآن، ستمبر 1962ء)