مزید خبریں

اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان مصنوعی ہے ، اسے معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جاسکتا

 

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی ) پاکستان کے33 خاندان اسٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں،صرف ڈھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہیں،پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان مصنوعی ہے۔ جس تیزی سے مارکیٹ اوپر گئی ہے اس سے زیادہ تیزی سے نیچے آسکتی ہے ، آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے نے مارکیٹ کو سہارا دیا۔ کمپنیوں کی کارکردگی، بروکرز کی نیت اور افواہیں اسٹاک مارکیٹ میں مندی اورتیزی کی3 بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ان خیالات کا اظہارسابق حکومتی ترجمان برائے معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم ، ماہر معیشت اوربینک آف پنجاب کے چیف اکانومسٹ صائم علی ، کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچا ، جامعہ کراچی شعبہ معاشیات کی پروفیسر ڈاکٹر صفیہ منہاج ،معاشی تجز یہ نگار ثناتوفیق اور مالیاتی اور اسٹاک مارکیٹ امور کے ماہر فرحان محمودنے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیاجس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان معیشت کے مستحکم ہونے کی نشانی ہے؟سابق حکومتی ترجمان برائے معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے جسارت کے سوال کے جواب میں کہاکہ دنیا میں عوام کی بڑی تعدادا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے اس لیے اسے معیشت کے اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی آبادی تقریبا 23 کروڑ ہے اور صرف ڈھائی لاکھ لوگ اسٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے، اس لیے پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف 33 خاندان ایسے ہیں جوا سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ صرف انہی 33 خاندانوں کو ہوتا ہے نہ کہ عوام کو۔سابق حکومتی ترجمان برائے معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کا مزید کہنا تھا اسٹا ک مارکیٹ میں مندی اور بہتری کی3بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ کمپنیوں کی کارکردگی، بروکرز کی نیت اور افواہیں۔ اس وقت ان تینوں پہلوؤں میں بہتری نظر آرہی ہے۔2017 میں کیپٹلائزیشن تقریباً ایک ارب کی تھی جو کہ اب تقریبا 20 ارب کی ہے۔ اس حساب سے شیئرز کی قیمت بہتر ہونی چاہیے لیکن روپے کی قدر گرنے سے بھی مطلوبہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ موجودہ حالات میں شیئرز کی قیمت بڑھنا نارمل ہے۔ لیکن مستقبل میں کیا ہو گا اس بارے میں یقین سے کچھ نہیںکہا جاسکتا ۔کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچا کے مطابق اضافہ مصنوعی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد اسٹاک مارکیٹ کا بہتر ہونا فطری تھا۔ لیکن مارکیٹ اس قدر اوپر آئے گی اس کی توقع نہیں تھی، جس تیزی سے مارکیٹ اوپر گئی ہے اس سے زیادہ تیزی سے نیچے گر سکتی ہے۔ گلف ممالک کی طرف سے آئل اینڈ گیس میں سرمایہ کاری اور نجکاری کی خبریں چلا کر مارکیٹ اٹھائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ لیکن یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ ماضی میں بھی10 ارب ڈالرز سے گوادر میں آئل ریفانری لگانے کے وعدے ہوئے لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا۔عوام کو سوچ سمجھ کر اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔بروکرز حضرات پہلے مارکیٹ بڑھاتے ہیں، پھر اپنا سستا مال مہنگا بیچ کر نکل جاتے ہیں اور عام سرمایہ کار نقصان اٹھاتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل بروکرز حضرات نیا چورن بیچ رہے ہیں کہ پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز انڈر ویلیو ہیں اور یہ مستقبل میں بڑھ جائیں گے۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز اوور ویلیو ہیں۔ اگر یہ انڈر ویلیو ہیں تو کمپنی خود اپنے سارے شیئرز خریدے اور اس کو اصل ویلیو پر لا کر دوبارہ بیج دے۔فی الحال مارکیٹ بنائی جا رہی ہے اور کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسا اسحاق ڈار صاحب کے مطابق ڈالر 244 کا ہے لیکن اس ریٹ پر حکومت بھی لینے اور دینے کو تیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر صفیہ منہاج کا کہناتھاکہ معاشی تھیوری میں تو یہی کہاجاتاکہ اگر کسی کی ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھنا ہے تو اسٹاک ایکسچینج کو دیکھ لیں یہ بالکل صحیح بات ہے لیکن پاکستان کے اندر یہ چیز نہیں ہوتی،حکومتی عہدے داراس کومصنوعی طورپر اوپرنیچے کرواتے ہیں۔ممتازمعاشی تجزیہ نگار ثنا توفیق نے جسارت کے سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ دیکھا جائے تو معیشت میں کچھ بہتری آئی ہے جس میں سب سے زیادہ ایکسچینج ریٹ میں ہونے والا استحکام ہے اور ملک کے بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں کچھ بہتری ہے ، خاص کر ملک کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم ہوا ہے،تاہم اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ثنا توفیق نے بتایا کہ اس وقت مقامی اور بیرونی سرمایہ کار دونوں اسٹاک مارکیٹ میں موجود ہیں اور امکان ہے کہ اس سال20 سے 30 کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔ ماہر معیشت اور بینک آف پنجاب کے چیف اکانومسٹ صائم علی نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اس وقت اسٹاک مارکیٹ میں جو تیزی ہے اس سے ایک عا م آدمی کو کوئی فائدہ نہیں۔ مالیاتی اور اسٹاک مارکیٹ امور کے ماہر فرحان محمود کاکہنا تھا کہ مارکیٹ میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے بعد مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا ہے جو کافی عرصے سے متزلزل تھا۔