مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اسلام اور جمہوریت
جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔
٭…٭…٭

اول یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بنا پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیںہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
٭…٭…٭‎

دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمے داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے، اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بْرے (لوگ) اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اْبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔
(رسائل و مسائل، چہارم، ص 279)