مزید خبریں

ایم کیو ایم ختم ہوچکی ،ن لیگ سے اتحاد مجبوری ہے،کراچی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) ایم کیو ایم ختم ہوچکی‘ ن لیگ سے اتحاد مجبوری ہے‘ کراچی کوکچھ حاصل نہیں ہوگا‘ متحدہ کا مقصد صرف وزارتوں کا حصول ہے‘ اتحاد سے صرف مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوگا‘ مفادات مشترکہ ہوں تو حریف کو حلیف بنتے دیر نہیں لگتی‘ متحدہ کو قومی سطح پر پذیرائی ملے گی ‘سندھ میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کا امکان ہے‘ 18ویںترمیم کے بعدوفاق صوبائی معاملات میں مداخلت نہیںکرسکتا اس طرح ایم کیو ایم کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ ان خیالات کا اظہار قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر فرحان صدیقی، ممتاز صحافی وتجزیہ کاروں ندیم رضا، سلمان غنی، محمد شاہد اقبال ، نذیر لغاری اور مسلم لیگ ن کراچی کے جنرل سیکرٹری ناصرالدین محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا ایم کیو ایم پاکستان اور ن لیگ کا اتحاد کراچی کے شہریوں کے لیے مفید ثابت ہوگا؟‘‘ پروفیسر فرحان صدیقی نے کہا کہ ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر 3 بار مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت رہی اور تینوں ادوار میں اسے ریاستی آپریشن کا سامنا کرنا پڑا‘ 2013ء کے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم دھڑوں میں بٹ گئی جو رواں سال لندن گروپ کو چھوڑ کر ایک بار پھر متحد ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی شامل تھی اور جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو ایم کیو ایم نے اس کا بھی ساتھ دیا اور بعد میں وہ شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی۔ ایم کیو ایم کے پاس محدود آپشن ہیں اور وہ ایک کمزور پارٹنر ہے‘ اس اتحاد سے صرف مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوگا اور وہ یہ تاثر دے گی کہ وہ ایک قومی اور وفاقی جماعت ہے ناکہ صرف پنجاب کی نمائندہ جماعت ہے‘ اس کے برعکس ایم کیو ایم ماضی کی طرح اس بار بھی کراچی اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی‘ ایم کیو ایم کو یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ اگر ن لیگ کی حکومت بنتی ہے تو وزارتوں میں ان کو شیئر ملے گا کیونکہ کراچی میں اب ایم کیو ایم کے لیے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے دوبارہ کراچی کا حصول دشوار ہے لہٰذا وہ وفاقی حکومت کا حصہ بن کر کچھ وزارتیں لے سکتی ہے‘ ایم کیو ایم خود کو الطاف حسین کے بغیر ری برانڈ کر رہی ہے اور وہ مہاجر نعرے لگا کر انتخابات کے لیے لوگوں کو جوش دلا رہی ہے‘ یہ نعرہ لگانے کی وجہ بلدیاتی اداروں کی کمزوری، صفائی، تعلیم و صحت کے مسائل ہیں۔ بلدیاتی اداروں اور کوٹا سسٹم کے علاوہ جبری طور پر گمشدہ کارکنوں کی بازیابی اور بند دفاتر کھولنے کی اجازت جیسے نعرے لگا خود کو کراچی کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کر رہی ہے‘ ایم کیو ایم کے لیے یہ اتحاد اس وجہ سے بھی اہم ہے کیونکہ کراچی کا مینڈیٹ اب تقسیم ہو گیا ہے۔ اب ایم کیو ایم کا تسلط اس طرح کا نہیں رہا جو 2013ء یا اس سے قبل تھا۔ ندیم رضا نے کہا کہ ایم کیو ایم کو جو عروج ماضی میں حاصل تھا وہ 2013ء کے انتخابات اور حالیہ بلدیاتی انتخاب میں دکھائی نہیں دیا۔ اسی لیے ایم کیو ایم نے ن لیگ سے اتحاد کر کے کراچی میں پنجابی ووٹ ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے‘ پیپلز پارٹی بھی کیونکہ سندھ اور کراچی کی حکمران جماعت ہے‘ اس لیے ایم کیو ایم کو ان سے اتحاد کر کے کچھ نہیں ملنا تھا‘ متحدہ نے2018ء میں پی ٹی آئی سے بھی اسی لیے اتحاد کیا تھا حالانکہ پی ٹی آئی نے ہی ایم کیو ایم کی نشستیں جیتی تھیں۔ نذیر لغاری نے کہا کہ یہ اتحاد بھی سہولت کاری کے تحت ہی وجود میں آیا ہے‘ اس کا کراچی کے حقوق یا مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ محمد شاہد اقبال نے کہا کہ ایم کیو ایم اور ن لیگ کے سیاسی رومانس کی طویل تاریخ ہے‘ سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست اور نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے‘ اگر مفادات مشترکہ ہوں تو حریف کو حلیف بنتے دیر نہیں لگتی‘ دونوں جماعتوں کے درمیان ماضی میں بھی سیاسی اتحاد ہوئے اور ختم بھی ہوئے۔24 اکتوبر 1990ء کو ہونے والے عام انتخابات میں نواز شریف کی زیر قیادت اسلامی جمہوری اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔شراکت اقتدار کے دستر خوان پر اپنے حصے کی پلیٹ کے لیے ایم کیو ایم نوازشریف کی اتحادی بنی اور کچھ عرصے یہ سیاسی رومانس چلا مگر 19جون 1992ء کو کراچی آپریشن پر ختم ہوگیا۔3 فروری 1997ء کو ملک میں پھر عام انتخابات ہوئے۔ اس بار بھی اقتدار نواز شریف کو ملا اور ایم کیو ایم پھر اس کی حکومت میں جا بیٹھی۔ اس بار بھی یہ اتحاد زیادہ عرصے نہ چلا اور 17 اکتوبر 1998ء کو کراچی میں سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کردیا گیا۔ حکومت کی طرف سے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر عاید کیا گیا تو اتحاد پھر ٹوٹ گیا۔سلمان غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم، ن لیگ اتحاد سے سیاسی طور پر تو دونوں کو ہی فائدہ ہوگا کیونکہ ن لیگ سندھ میں اتنی مضبوط نہیں رہی اب ایم کیو ایم سے ہاتھ ملا کر شاید وہاں سے جیتی گئی نشستوں سے حکومت سازی آسان ہوجائے گی۔ مگر ہم اس اتحاد سے سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کی بات کریں تو ماضی کی طرح اس بار صورتحال وہی رہے گی‘ نظر یہ آتا ہے کہ کراچی بدستور مسائل کی آماجگاہ بنا رہے گا، بات اگر متحدہ قومی موومنٹ کی کی جائے تو اگر مرکز میں ن لیگ حکومت بناتی ہے تو اس کو شاید وازارتیں مل جائیں مگر اس سے سندھ کے شہری علاقوں کو کچھ فوائد ملیں تو ایسا ہونا کچھ مشکل ہوگا کیونکہ غالب امکان یہ ہے کہ سندھ میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بنائی گی اور 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق صوبائی معاملات میں دخل اندازی نہیںکرسکتا۔ ناصر الدین محمود نے کہا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے اتحاد سے کراچی کے شہریوںکو بہت فائدہ ہوگا‘ متحدہ قومی موومنٹ جب بنی تھی تو بنیادی طور پر مہاجر قومی موومنٹ تھی اس کے بعد یہ متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوئی ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس نے خلوص دل کے ساتھ اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے لیکن قومی سطح پر اس کو پذیرائی نہیں مل سکی‘ اب مسلم لیگ ن سے اتحاد کی صورت میں ان کو یہ فائدہ پہنچے گا اور وہ قومی دھارے میں شامل ہوجائے گی‘ اس طرح ایک سیاسی جماعت جو قومی دھارے سے کٹی ہوئی ہے‘ قومی ادھارے میں آئے گی‘ کراچی کا ملک میں اہم ترین کردار ہوا کرتا تھا‘ 1977ء کے بعد کراچی کا سیاسی کردار محدود ہونا شروع ہوا اور اب تقریباً ختم ہو چکا ہے یعنی قومی سطح پر جتنی سرگرمیاں ہیں اس کا مرکز اب لاہور اور اسلام آباد ہے ،کراچی پر کوئی نگاہ نہیں جاتی‘ ایم کیو ایم اور ن لیگ کے اتحاد سے کراچی کی سیاسی مرکزیت بحال ہوگی یہاں سیاسی سرگرمیاں بڑھیں گی۔