مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

بے ہودہ گوئی کی ممانعت
(قرآن کریم میں پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کرنے کے) حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں، کیوںکہ اس سے بے شمار بُرائیاں پھیلتی ہیں، اور اُن میں سب سے بڑی بُرائی یہ ہے کہ اس طرح غیرمحسوس طریقے پر ایک عام زناکارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط، گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے، اس میں نمک مرچ لگا کر اور لوگوں تک انھیں پہنچاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی ’معلومات‘ یا بدگمانیاں بیان کردیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے، بلکہ بُرے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ، معاشرے میں کہاں کہاں اُن کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سدّباب پہلے ہی قدم پر کردینا چاہتی ہے۔

ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو، جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے، وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے، ورنہ اس پر 80 کوڑے برسا دو تاکہ آیندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلاثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بدکاری کرتے دیکھ لیا ہو، تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے، تاکہ گندگی جہاں ہے، وہیں پڑی رہے، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بے ہودہ چرچے کرنے کے بجاے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کرکے اسے سزا دلوا دے۔ (سورۃ النور، حاشیہ6)
٭…٭…٭

اصلاح معاشرہ

انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علّت انسان کا اپنے آپ کو خودمختار (independent) اور غیرذمّہ دار (irresponsible) سمجھنا، بالفاظِ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحب ِ امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اُوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دُور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دُور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔ لہٰذا، اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اِسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خودمختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ تُو جس دنیا میں رہتا ہے، وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے، اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے، نہ تو اُس کے حدودِ سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اِس اَمٹ اور اَٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خودمختاری کا زَعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اُوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اُس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔
(تحریک آزادی ہند اور مسلمان۔ ص 179)