مزید خبریں

اشرافیہ ہمیشہ خود کو بچاکر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیتی ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)اشرافیہ ہمیشہ خودکو بچا کر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیتی ہے‘ وڈیرے، صنعتکار، پارلیمنٹرینز اور مافیاز حکومت پر دبائو ڈال کر خود کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھتے ہیں‘ اپنے مفادات کے لیے اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کی جاتی ہے‘ ملازمین کی تنخواہوں سے ازخود پیشگی کٹوتی ہوتی ہے‘ سود کے خاتمے تک معیشت بحران سے نہیں نکل سکتی۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ، مجلس احرار الاسلام کے نائب امیر عبداللطیف خالد چیمہ اور پاکستان ریلوے کی سودا کار پریم یونین کے مرکزی صدر شیخ محمد انور نے ’جسارت‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک کو درپیش شدید معاشی مسائل کے باوجود اشرافیہ پر ٹیکس لگانے کا کوئی منصوبہ کیوں نہیں بنایا جاتا؟‘‘ ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان کی اشرافیہ میں سب سے بڑا جاگیر دار طبقہ ہے جو ملکی دولت کے ایک بڑے حصے پر قابض ہونے کے باوجود ملک میں زرعی ٹیکس نافذ نہیں ہونے دیتا، جب بھی ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو اسمبلیوں کے ذریعے حکمرانوں پر دبائو ڈال کر ایسی کوششوں کو ناکام بنا دیتا ہے پھر یہی طبقہ اپنی دیگر ذرائع سے ہونے والی آمدن کو
بھی زرعی آمدن ظاہر کر کے ٹیکس ادا نہیں کرتا اور قومی خزانے کے نقصان کا باعث بنتا ہے، ہر حکومت ان سے بلیک میل ہوتی ہے، پھر اس جاگیردار طبقے کے طرز عمل کے سبب صنعتکاروں اور لینڈ مافیا سمیت دیگر طبقات میں بھی ٹیکس چوری کا رجحان بڑھتا ہے۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے کہا کہ ملک کے جس معاشی بحران کا رونا ہمارے حکمران روتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ تو سود ہے جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا، پاکستان کی معیشت بحران سے نکل سکتی ہے نہ ترقی کے راستہ پر گامزن ہو سکتی ہے‘ پھر ہماری حکمران اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے ملک کو ٹھیکے پر لے رکھا ہے اس لیے ان کو حاصل شاہانہ مراعات ختم نہیں کی جا سکتیں، اس طرح بجٹ کا بڑا حصہ اس طبقے کی مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے اور ملک کے ترقیاتی منصوبوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہو پاتے‘ اگر اس طبقہ کی مراعات ختم کر کے اس پر بھاری ٹیکس عاید کیے جائیں تو ملک کو معاشی مسائل سے نجات مل سکتی ہے اور ہم تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔شیخ محمد انور نے رائے دی کہ اشرافیہ خود ہی فیصلے کرنے میں با اختیار ہوتی ہے، وہ خود کو بچا کر دوسروں پر ٹیکس کا بوجھ لاد دیتی ہے‘ ہمارے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز نے قانون کو موم کی ناک بنا دیا ہے جسے وہ اپنے مفادات کے تحفظ اور خود کو ٹیکسوں سے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسی قانون سازی کر رکھی ہے کہ ملازمت پیشہ لوگوں کی تنخواہوں میں سے تو از خود پیشگی ٹیکس کٹوتی کر لی جاتی ہے مگر یہ با اثر اور با اختیار طبقہ ٹیکسوں سے بچ نکلتا ہے حالانکہ ملک کے معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ ان پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں۔