مزید خبریں

نوازشریف کی مقدمات میں ضمانت اور وی وی آئی پی پروٹوکول ڈیل کو ظاہر کرتا ہے

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) نواز شریف کی مقدمات میں ضمانت اور وی وی آئی پی پروٹوکول ڈیل کو ظاہر کرتا ہے‘ ملک کو تباہی سے دوچار کر نیوالوں کو ڈھیل دینا ملک سے غداری ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کی مفرور قیدی سے ڈیل اور سیاسی معاملات میں مداخلت غیر آئینی اقدام ہے‘جلدہی تمام مقدمات ختم کرکے نواز شریف کو باعزت بری کردیاجائے گا۔ اس سلسلے میں جسارت نے مقتدر شخصیات سے رائے لی اور اس سوال کا جواب طلب کیا کہ “کیا نواز شریف کی واپسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا نتیجہ ہے؟”۔ اس سلسلے میں جن شخصیات نے رائے میں حصہ لیا ان میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر ڈاکٹر فرید پراچہ، جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ بن رضی، پروفیسر غلام دستگیر اور سعود تابش شامل ہیں۔ فرید پراچہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خفیہ معلومات کا معاملہ نہیں ہے کہ جس میں کوئی آپ کے ساتھ کسی معاملے کو شیئر کرے۔ یہ ایک اعلانیہ چیز ہے اور ہر کسی کو نظر آرہا ہے کہ جو کچھ ہے اب جس طرح سے وہ آئے ہیں جس طرح سے عدالتی معاملات کو ان کے حق میں کیا گیا جس طرح سے ان کو آنے دیا گیا ہے اور ضمانت منظور کی گئی۔ ان کو سہولت دی گئی ‘ پھر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے نواز شریف کو پروٹوکول ملنا تو یہ ساری باتیں واضح کر رہی ہیں یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ہے۔ پھر ایسے وقت میں ایک اور پارٹی کے ساتھ دوسرا رویہ روا رکھا جا رہا ہے یا دیگر جماعتوں کو یہ سہولتیں نہیں دی جا رہی ہیں جو ن لیگ کو مل رہی ہیں‘ اس میں کوئی 2رائے نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس میں خوشنودی اور رضا مندی شامل ہے۔ دوسرا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینا اور اس کے ساتھ ڈیل کرنا غلط ہے تو خود اسٹیبلشمنٹ کا یہ کام کرنا اس سے بھی زیادہ غلط ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ اس کا جو کام آئین میں متعین کردیا گیا ہے اس سے انحراف کرے، بلکہ ہر ادارے کو اپنے دائرے میں کام کرنا چاہیے‘ چاہے وہ سول بیوrwکریسی ہو، چاہے ملٹری بیوروکریسی ہو‘ ان کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں‘ ان کا سیاست میں مداخلت کرنا غیر آئینی اقدام ہے‘ ملک کے حالات کو کیسے چلانا ہے اس کا فیصلہ صرف منتخب قیادت نے کرنا ہے ‘ چاہے حکومت ہو یا عدالت ہو‘ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ شہریوں کے ساتھ یکساں رویہ رکھنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اب ووٹر کے پاس جائیں، نئے انتخابات کرائیں۔ یہ باتیں جو ہیں کہ کون آیا اور کون نہیں آیا، وہ کیوں آیا اور کیوں بھیجا گیا‘ یہ اہمیت رکھتی ہیں لیکن اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ انتخابات بروقت اور شفاف ہوں‘ عوام کو ان پر اعتماد اور یقین ہو‘ اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں اگر کوئی کردار ادا کرسکتی ہے تو ضرور ادا کرے۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ نظر آتی ہے ‘ نواز شریف کو علاج کے بعد یہاں واپس آنا تھا لیکن اس کے باوجود وہ واپس نہیں آئے اور4 سال تک لندن میں عیش کرتے رہے‘ اب جب انتخابات ہونے والے ہیں تو اقتدار کو سنبھالنے کے لیے آگئے ہیں‘ ملکی ماحول کو اپنے اور ن لیگ کے حق میں کرنے کے لیے انہوں نے یہ تمام کام کیا ہے اور مجھے بڑا افسوس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے معاہدہ کیا اور ان کو باعزت طور پر آنے کی اجازت دی‘ انہوں نے مینار پاکستان پر ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا‘ یہ سب باتیں ایک ڈیل کا نتیجہ لگتی ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت چھوڑ دینی چاہیے اور ان کو یہ تمام چیزیں انتخابات میں عوام پر چھوڑ دینی چاہئیں‘ نواز شریف3 مرتبہ اقتدار میں رہے‘ ان کے ہر دور میںکرپشن کا دور دورہ رہا‘ ملک آج جس بھیانک بحران سے گزر رہا ہے اس کے پیچھے وہ تمام ماضی کی حکومتیں اور خاص طور پر نواز شریف کی حکمرانی بھی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے قرضے لیے ، ملک کو بدحال کیا‘ اب ملکی وغیر ملکی قرضوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ‘ آئے دن گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث قوم بھوک، افلاس میں مبتلا ہوگئی‘ اسٹیبلشمنٹ اس طرح کے لوگوں کو آگے بڑھانے سے گریز کرے‘ انہوں نے پہلے عمران خان کو آگے بڑھایا انہوں نے ملک کو بد انتظامی کا شکار کیا‘ چوروں اور لوٹ مار کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے نعرے لگا لگا کر عوام کو صرف بیوقوف بنایا اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا‘ اب اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو سہارا دے رہی ہے‘ جو ایک بدترین آپشن ہے‘ جماعت اسلامی کو جب بھی موقع ملا اس نے عوام کی خدمت کی ہے‘ کراچی میں سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے عوام کی بے لوث خدمت کی۔ ڈاکٹر اسامہ بن رضی نے کہا کہ اس سوال کی جڑیں بڑی گہری ہیں اور یہاں پر تو طے در طے ڈیلرز بیٹھے ہوئے ہیں جس کے ساتھ جس نے ڈیل کی ہے وہ بھی ڈیلر ہے جس سے ڈیل ہوئی ہے وہ بھی ڈیلر ہیں‘ یہاں عالمی ڈیلرز بھی موجود ہیں اور اصل مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے‘ وہ 2 بڑے ایجنڈے ہیں جو گریڈ گیم کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں مشرق وسطی میں اسرائیل کی حتمی بالادستی بذریعہ مذاکرات قائم کرنا ہے اسی تناظر میں 6،7 مسلم ممالک عنقریب اسرائیل کو قبول کریں گے‘ حماس کی یہ کارروائی اس سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے‘ دوسرا بڑا ٹارگٹ جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی ہے ‘ ممکنہ طور پر کشمیر کو خود مختار ریاست بنایا جائے گا‘ اس ایجنڈے کے تحت سزا یافتہ نواز شریف کو یہاں لایا گیا ہے چنانچہ وہ شخص جو عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ مجرم ہے اور جو ’’ووٹ کو عزت دو کانعرہ ‘‘ لگاتا ہے‘ اس شخص نے واپس آنے کے بعد ووٹ کی، جمہوریت کی، انتخابات کی اور بنیادی انسانی حقوق کی کوئی بات ہی نہیں کی‘ اس نے صرف ایک بات کی اور وہ یہ کہ اگر میں ہوتا تو بھارت کو پاکستان کے ذریعے راہداری مل چکی ہوتی۔ پروفیسر غلام دستگیر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی واپسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا نتیجہ ہے‘ سب سے پہلے پاکستانی ہائی کمشنر کا نواز شریف سے ملنا‘ ائر پورٹ پر نواز شریف کو الوداع کرنا‘ عدالت کا نواز شریف کو اس کی غیر موجودگی میں حفاظتی ضمانت دینا‘ ائرپورٹ پر بائیو میٹرک کروانا‘ ہیلی کاپٹر میں شاہی قلعہ آنا‘ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ نواز شریف کی واپسی ڈیل کا نتیجہ ہیجبکہ اس وقت وہ ایک مفرور قیدی ہیں‘ تمام چوٹی کے وکلا اس پر متفق تھے کہ نواز شریف کو آتے ہی ہوائی جہاز کے اندر سے ہی گرفتار کرلیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ نواز شریف کو حفاظتی ضمانت دے دی گئی۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں نواز شریف کے تمام کیس ختم ہو جائیں گے اور وہ باعزت بری ہو جائیں گے۔ سعود تابش نے کہا کہ ہر ذی شعور سے لے کر بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ معاملہ ڈیل کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات پر افسوس ہے کہ قومی خزانے اور ملک کو تباہی کی طرف لے جانے والوں کو ڈھیل دینا ملک سے غداری کے مترادف ہے‘ نواز شریف کے ساتھ جو ڈیل ہوئی ہے اس سے نہ قوم خوش ہے اور نہ ہی اس نازک وقت میں انہیں کوئی فائدہ حاصل ہوسکے گا جس طرح انتخابات نہ ہونے کی صدائیں گونج رہی ہیں اس میں ان کو لانے کا مقصد کچھ اور ہی نظر آتا ہے‘ اس پر قوم کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔