مزید خبریں

مادی اور نفسیاتی رکاوٹیں

روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں۔

مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔

دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر ڈھیر سامال کسی کو مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو‘ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتا ہے اور رونا دھونا شروع کردیتا ہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔

یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتا ہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتا ہے۔