مزید خبریں

حماس نے مسئلہ فلسطین پھرزندہ کرکے اسرائیل کا تکبرخاک میں ملادیا

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) حماس نے مسئلہ فلسطین پھرزندہ کرکے اسرائیل کا تکبرخاک میں ملادیا‘ اہل ایمان نے ٹیکنالوجی پر اپنی برتری ثابت کر دی‘ عالمی جنگ کا خطرہ پیداہوگیا ‘روس کو امریکا اورمغرب کے خلاف پراکسی وار کے لیے دوسرے ملک کی سرزمین چاہیے‘یہودیوں نے امریکا اور مغربی ممالک کی مدد فلسطینیوں کو غلام بنا رکھا ہے‘ مسلم حکمران خاموش ہیں، غیرمسلم ممالک اسرائیل کی حمایت میں متحدہیں۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور چترال سے قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا
عبدالاکبر چترالی، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر، معروف ٹی وی اینکر، تجزیہ کار ، کئی کتابوں کے مصنف اوریا مقبول جان، ڈائریکٹر امور خارجہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان ، سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، معروف تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور بھارت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، نئی دہلی سے بیک وقت اردو میں قومی آواز، انگریزی میں نیشنل ہیرلڈ اور ہندی میں نوجیون انڈیا ڈاٹ کام ویب سائٹ کے ایڈیٹر اینڈ چیف ظفر آغا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیاکہ ’’کیا حماس کی مزاحمتی قوت نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کو زندہ کر دیا ہے؟‘‘ قبلہ ایاز نے کہا کہ بالکل اس میں شک نہیں کہ حماس کی حالیہ مہم سے صحیح معنوں میں مسئلہ فلسطین دوبارہ زندہ ہو گیا ہے‘ امریکی صدر جو بائیڈن الاعلان اسرائیل کی حمایت کے لیے سامنے آئے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اسرائیل کے دورے پر آئے تھے اور اس وقت برطانیہ کے کچھ لوگ جو ہیں وہ اسرائیل سے واپسی کا سفر اختیار کر چکے ہیں، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ زندہ ہو گیا ہے اور مذاکرات میں بھی فی الحال حماس کی پوزیشن مضبوط ہے ‘ کیونکہ انہوں نے سیکڑوں کی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو قیدی بنا رکھا ہے‘ یقینا مذاکرات کی جب نوبت آئے گی تو اس میں حماس کی پوزیشن مضبوط ہوگی تو اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ کیا صورتحال ہوتی ہے‘ اس وقت دنیا بھر کے چینلز پر صرف فلسطین اور غزہ کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ اس دفعہ حماس نے مسئلہ فلسطین کو زندہ ہی نہیں کیا بلکہ پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ عالم اسلام کے لیے پیغام ہے کہ جہاد کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسراراستہ نہیں ہے‘ گزشتہ 50 برس سے محاصرے میں زندگی جیتے ہوئے فلسطینی اس حقیقت سے واقف ہو گئے ہیں کہ جب کوئی قوم مرنے کا فیصلہ کر لے تو پھر زندگی اس کے قدموں سے لپٹ جاتی ہے اور موت اس سے کوسوں دور بھاگنے لگتی ہے۔ ورنہ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ غزہ کے وہ نہتے لوگ جن کے پاس مناسب اسلحہ تو دور فوجی وردی تک نہیں ہے، جدید ترین اسلحہ کے نام پر جن کے پاس ایکسپائری کے زمرے میں داخل بندوقوں اور میزائیل کے نام پر ہوم میڈ راکٹس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے‘ وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کے حامل ایک ایسے ملک سے لڑ سکتے ہیں جس کی اپنی فضائیہ اور مسلح ڈرون ہیں، راکٹس و میزائیل کو فضا میں ہی تباہ کرنے والا آئرن ڈوم سسٹم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ملک خارجی و داخلی طور پر دنیا کا مضبوط ترین جاسوسی نظام رکھتا ہے، اس ملک کے 22 سے زاید مقامات پر حماس قبضہ کر لے گا‘ ظاہر ہے کہ یہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے پہلے خود کو مٹانے کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔ ان نہتوں نے پہلے خود کو مٹا ڈالنے کا عزم کیا جس کے نتیجے میں آج کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔نہتے فلسطینیوں نے اسرائیل کے چھکے چھڑا دیے ہیں، اسرائیل کی طاقت اورتکبر پوری دنیا کے سامنے خاک میں ملا دیا۔ اس جنگ نے یہ بتا دیا کہ اسرائیل صرف اسی وقت شیر بنتا ہے جب اس کے سامنے کوئی کمزور ہو، لیکن جیسے ہی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ سامنے والا موت سے نہیں ڈرتا ہے تو پھر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ جنگ فلسطینی مسلمان اپنے حوصلے اور جنون سے لڑ رہے ہیں جو یہ ثابت کر رہا ہے کہ فلسطینی غلیل اسرائیلی ٹینک اور آئرن ڈوم پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مفتی محمد زبیر نے کہا کہ یقینا حماس کے حالیہ اقدام سے مسئلہ فلسطین دنیا بھر میں دوبارہ بھرپور انداز میں اُبھر کر سامنے آیا ہے اور دنیا مسئلہ فلسطین کے حل کی باتیں کرنے لگی ہے۔ یہ فلسطینیوں کی بڑی غیر معمولی کامیابی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک اس پر مضبوط موقف اپنائیں اور ایک پائیدار حل کی طرف دنیا کو لیکر آئیں اور فوری طور پر اسرائیلی حملے رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اس وقت فلسطین کے اسپتال مردہ خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ شہدا کی تعداد سیکڑوں سے نکل کر ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ غزہ میں آگ اور خون کا راج ہے اور مائیں معصوم بچوں کی لاشوں پر بین کر رہی ہیں‘ ایسی صورتحال میں 57 اسلامی ممالک کا کردار نہایت کمزور اور مایوس کن ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ آزادی نے اسرائیل کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کا خون ناحق رائیگاں جائے گا! ہرگز نہیں‘ اس جنگ کو شروع کرنے سے قبل حماس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو ایک بار پھر یاد دہانی کرا دی جائے کہ مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا ہے اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو بھی یہ پتا چل جائے کہ دنیا میں ایک فلسطینی قوم بھی ہے جس کو اسرائیل نے امریکا اور مغربی ممالک کی مدد سے غلام بنا رکھا ہے‘ حماس نے اس سارے ایکشن سے نہ صرف مردے کو زندہ کیا ہے بلکہ مردے میں جان بھی ڈالی ہے ۔ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک نے ہمیشہ سے امت کے مردہ جسم میں نئی جان ڈالی ہے اور ہم قبلہ اول کے ان پاسدارن کے ہمیشہ مقروض رہیں گے، جب بھی امت کے خلاف کوئی سازش ہوتی ہے اور غاصبوں کے لیے کوئی نرمی پائی جانے لگتی ہے اور پسے پردہ روابط بڑھائے جاتے ہیں تو فلسطین کے جانباز امت کو اپنے دشمن کے خلاف سر اٹھا کر جینے کی ہمت عطا کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر امت کو زندگی کا پیام دیا ہے اور بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے آرام دے کمروں میں اپنے نرم بستروں پر چین کی نیند سو رہے ہیںجبکہجو لوگ جہاد کے میدان میں جان ہتھیلی پر رکھ کر کھڑے ہوئے ہیں تو ان کو ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘ موت کے آئینے میں رخ دوست ان کو نظر آرہا ہے اور انہوں نے پوری امت کو پیغام دیا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈرکی100 سالہ زندگی سے بہتر ہے تو ہم فلسطینی قوم کو سلام پیش کرتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ حماس کو بھی اسی طرح سے دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے صلیبی جنگوں میں بربر قبائل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ حماس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا ان کو دیوار سے لگایا گیا تو سسک سسک کر مرنے کے بجائے انہوں نے سر اٹھا کر لڑ کر مرنے کا اور شوق شہادت سے سرشار ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ امت کو زندگی کا پیغام حماس نے ہمیں دیا ہے۔ڈاکٹر عارف صدیقی نے کہاکہ حماس کی مزاحمت نے مسئلہ فلسطین کو زندہ تو نہیںکیا کیونکہ یہ مزاحمتی تحریک زندہ تو پہلے سے تھی‘ اصل میں اسے زیادہ توانا کر دیا ہے‘ پہلے نمبر پر یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا ایک ہاٹ ایشو بن چکا ہے اور یہ ممکن ہے کہ دنیا خود کواس مسئلے کی وجہ سے عالمی جنگ کے دہانے پر دیکھے۔ اس سے پہلے یوکرین میں دنیا کو عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوا تو پوری دنیا کودی اور انہوں نے یوکرین کے مسئلے کو ٹھنڈا کیا ورنہ اس وقت عالمی جنگ چھڑ چکی ہوتی۔ اب فلسطین کے معاملے میں دوبارہ سے اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ممکن ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں 2 گروپس میں تقسیم ہو جائیں کیونکہ روس اس وقت امریکا یا مغرب کی سائیڈ نہیں لے رہا۔ کیونکہ اسے اپنی پراکسی وار لڑنے کے لیے کوئی نہ کوئی بیرونی اسٹیٹ یا بیرونی سرزمین چاہیے تھی۔ اسے فلسطین کی شکل میں یہ زمین مل جائے گی اور وہاں پر پوری دنیا کے متحارب قوتیں ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسرے نمبر پر اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ حماس نے موجودہ معرکے میں اسرائیل کی طاقت کے بت کو پاش پاش کر دیا ہے۔ تیسرا نقطہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ حماس کی موجودہ مزاحمت میں مسلم حکمرانوں کے دوغلے پن کو، ان کی منافقت کو، ان کی بے حمیتی کو بے نقاب کر دیا۔ آپ دیکھے کہ پورا عالم کفر اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے مگر عالم اسلام کو لیڈ کرنے والے بڑے بڑے ممالک اس موقع پر اول تو خاموش ہیں اور اگر کوئی ایک دو بول بھی رہے ہیں تو عمومی طور پر صرف زبانی کلامی مدد کر رہے ہیں‘ اپنے بیڑے، اپنے جہازاور اپنے فائٹرز نہیں بھیج رہے ‘ جیسے امریکا، جرمنی اور برطانیہ وہاں بھیج رہے ہیں۔ چوتھے نمبر پر موجودہ مزاحمت نے یورپ، امریکا اور اقوام متحدہ کے دوغلے کردار کو بھی برہنہ کر دیا۔ اقوام متحدہ اور دیگر یورپی ممالک انسانی حقوق کا جو ڈھنڈورا پیٹتے تھے‘ دہشت گردی کا جو واویلا مچاتے تھے، ا سرائیل کی دہشت گردی اور سویلین کی اموات پر وہ چپ ہیں۔ پانچویں نمبر پر حماس کے مجاہدین نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو واضح کیا کہ جنگیں جذبے اور مہارت سے لڑی جاتی ہیں نہ کہ ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر۔ آپ کے پاس جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی ٹیکنالوجی ہے، اگر آپ نے اس میں مہارت حاصل کی ہوئی ہے اور آپ کے دل میں ایمان کا جذبہ موجزن ہے تو آپ بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یعنی ایمان بمقابلہ ٹیکنالوجی کے معرکہ میں ایک مرتبہ پھر اہل ایمان نے ٹیکنالوجی پر اپنی برتری ثابت کر دی۔ آخری نمبر پر ہم سب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پوری دنیا کی اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بیت المقدس پر جس نے حکومت کی اس نے پوری دنیا پر حکومت کی۔ یہ ایک عجیب قانون ہے‘ تمام مسلمانوں کو اس نقطے کو سمجھ لینا چاہیے ۔ ظفر آغا نے کہاکہ ایک بار پھر فلسطین جنگ آزادی میں مصروف ہے۔ یہ جنگ غزہ میں ہو رہی ہے۔ تقریباً 75 برس گزر گئے لیکن فلسطینیوں کی جنگ آزادی جاری ہے۔ افسوس یہ کہ وہ جب جب آزادی کی جنگ لڑتے ہیں، اسرائیل تب تب ان کی بچی کھچی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے جبکہ فلسطینیوں کو موت کا جام پی کر آزادی تو درکنار غلامی کے اندھیروں میں پھر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے لیکن آزادی کے متوالے فلسطینی پھر بھی ہر قسم کی قربانی دے کر ایک بار پھر اپنی آزادی کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں ۔