مزید خبریں

کا مستقبلEOBIـ

نجی شعبہ کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ، معذوری اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے پسماندگان کو تاحیات پنشن فراہم کرنے والے قومی ادارہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) زیر نگرانی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان کو اس وقت سنگین مالی اور انتظامی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جن میں 1995ء سے وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والی میچنگ گرانٹ کی بندش سر فہرست ہے جبکہ آجران کی اکثریت کی جانب سے اپنے اداروں اور ملازمین کی رجسٹریشن سے ہر ممکن بچنے کی پالیسی اور قلیل تعداد میں رجسٹرڈ آجران کی جانب سے موجودہ کم از کم اجرت کے بجائے پرانی شرح سے کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے باعث ای او بی آئی پنشن فنڈ کو دو کھرب روپے سے زائد کے خسارہ کا سامنا ہے اور اس تشویش ناک صورت حال کے باعث آئندہ برسوں میں پنشن فنڈ کے خاتمہ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ جو لمحہ فکریہ ہے
ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ مجریہ 1976ء کے مطابق ای او بی آئی کی تشکیل ایک سہ فریقی ادارہ کے طور پر کی گئی تھی۔ جس کے تحت دو شراکت داروں وفاقی حکومت اور آجران کو اس پنشن منصوبہ کا مالی سرپرست مقرر کیا گیا تھا اور تیسرے شراکت دار ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات پنشن فوائد کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس قانون کے مطابق وفاقی حکومت ای او بی آئی کی جانب سے رجسٹرڈ آجران کی جانب سے وصول کردہ سالانہ کنٹری بیوشن کے مساوی رقم سالانہ میچنگ گرانٹ کے طور پر باقاعدگی سے فراہم کیا کرتی تھی۔ لیکن 1995ء میں اچانک ایک فنانس بل کے ذریعہ یہ میچنگ گرانٹ بند کردی گئی اور اب وفاقی حکومت ای او بی آئی کو دکھاوے کے طور پر محض ایک لاکھ روپے سالانہ میچنگ گرانٹ ادا کر رہی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے میچنگ گرانٹ کی بندش سے ای او بی آئی کے پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ اس پنشن منصوبہ کے دوسری مالی سرپرست آجر برادری کی اکثریت بھی اٹھارویں آئینی ترمیم کی آڑ میں اور بعض قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ مجریہ 1976ء کی خلاف ورزی کرنے اور اپنی قانونی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی میچنگ گرانٹ اور آجران سے وصول کردہ سالانہ کنٹری بیوشن ہی ای او بی آئی کا واحد ذریعہ آمدنی ہے۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں ملک بھر کے ہزاروں چھوٹے بڑے آجران کے اداروں میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں ملازمین اور متوفی ملازمین کے بے سہارا پسماندگان اپنی پنشن کے بنیادی حق سے محروم ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب حکومت سندھ کے وزراء اور حکام اور بعض مفاد پرست آجران ای او بی آئی کی صوبوں میں تقسیم کا شوشہ چھوڑنے میں بھی مصروف رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپریل 2010 ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وفاق اور صوبوں کے درمیان اداروں کی سپردگی کے تنازعات کا تصفیہ کرنے والی مشترکہ مفادات کونسل (CCI) 23 دسمبر 2019ء کو وزیر اعظم پاکستان کی صدارت میں منعقدہ اپنے 41 ویں اجلاس میں متفقہ طور پر ای او بی آئی کو وفاق کے تحت برقرار رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اسی طرح معزز سندھ ہائی کورٹ نے بھی 14 دسمبر 2022ء کو سندھ کے متعدد بڑے آجران اور کاروباری اداروں کی جانب سے اٹھارویں آئینی ترمیم کی آڑ میں اور چند قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے ای او بی آئی کے ماہانہ کنٹری بیوشن کے خلاف دائر متعدد پٹیشنز کی سماعت کے دوران ای او بی آئی کی وفاقی حیثیت کے پیش نظر اور ریٹائرڈ اور بزرگ ملازمین کے پنشن فوائد کی اہمیت کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے ای او بی آئی کنٹری بیوشن کے مسئلہ پر دائر تمام پٹیشنز کو مسترد کردیا تھا اور آجران کو ای او بی آئی کو بدستور کنٹری بیوشن ادا کرنے کے احکامات صادر کئے تھے۔ لیکن ان دونوں اہم اداروں کے ان تمام واضح فیصلوں کے باوجود آجران کی اکثریت اپنے ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات پنشن کے بنیادی حق سے محروم رکھنے کے لیے بدستور مختلف قسم کے حربے اور عذر تراشیاں استعمال کر رہی ہے اور ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون مجریہ 1976ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے اداروں اور اپنے تمام ملازمین کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن کرانے سے ہر ممکن گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو ناقابل فہم بات ہے۔ اسی طرح اکثر رجسٹرڈ آجران بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ کم از کم اجرت کے بجائے پرانی شرحوں سے ای او بی آئی کو دکھاوے کے طور پر ماہانہ کنٹری بیوشن ادا کر رہے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کے باعث ای او بی آئی کی ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور ماہانہ پنشن کی رقوم میں شدید عدم توازن پیدا ہوگیا ہے۔
قانون کے مطابق ہر تین برس کے وقفہ کے بعد ای او بی آئی کے واجبات اور اثاثہ جات کی ایکچوریل ویلیویشن کرانا لازمی ہے۔ جس کے بغیر کنٹری بیوشن اور پنشن کی شرح میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا 30 جون 2022ء میں ای او بی آئی کے واجبات اور اثاثہ جات کی گیارویں تخمینہ کاری کرائی گئی تھی۔ جس کی رپورٹ میں ایکچوریل ماہرین نے پنشن فنڈ میں 2.517 کھرب روپے کے مجموعی خسارہ کا ہوشربا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ای او بی آئی کے بیمہ دار افراد کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور پنشن منصوبہ میں سالانہ اوسطاً 40 ہزار پنشنرز اور ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد بیمہ دار افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ اس وقت ملک بھر میں چار لاکھ سے زائد بزرگ ،معذور اور بیوگان مختلف تاحیات پنشن سے مستفید ہو رہی ہیں اور اس وقت کم از کم پنشن 10 ہزار روپے ماہانہ اور زیادہ سے زیادہ 21,000 روپے ماہانہ تک ادا کی جارہی ہے ای او بی آئی کی پنشن کے تعین کا دارومدار ’’جتنا زیادہ کنٹری بیوشن اتنی زیادہ پنشن‘‘ پر ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ای او بی آئی کی طویل مدتی پنشن سے اوسطاً ایک گھرانہ کے تین افراد تقریباً 25 برس تک مستفید ہوتے ہیں۔ لہٰذا ای او بی آئی پر مستقبل کے لاکھوں پنشنرز کی پنشن کی ادائیگی کی قانونی ذمہ داری 2.965 کھرب روپے بنتی ہے۔ جبکہ رپورٹ کے مطابق اس وقت پنشن فنڈ کی ویلیو صرف 0.448 کھرب روپے بتائی گئی ہے۔ ایکچوریل ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر
ماہانہ کنٹری بیوشن کی موجودہ شرح 6 فیصد مستقبل میں بھی برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ آئندہ پانچ تا دس برسوں کے دوران پنشن فنڈ میں کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی اور آئندہ 11 تا 16 برسوں کے دوران ای او بی آئی پنشن فنڈ کے مکمل خاتمہ کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر برائے سمندرپار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان ساجد حسین طوری نے بھی 27 جولائی 2022ء کو قومی اسمبلی میں دیئے گئے اپنے بیان میں 2033ء میں پنشن فنڈ میں کمی واقع ہونے اور 2039ء میں اس کے مکمل خاتمہ کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔
اس مخدوش صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت آئین کی دفعہ 38(c) کے تحت اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فوری طور پر ای او بی آئی کی میچنگ گرانٹ بحال کرے، وفاقی حکومت ملک کی ساڑھے سات کروڑ سے زائد محنت کشوں پر مشتمل لیبر فورس کی فلاح وبہبود کے لیے ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون مجریہ 1976ء میں ضروری ترامیم اور اصلاحات کے لیے قانون سازی کرے ، موجودہ محدود پنشن منصوبہ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اسے ہمہ گیر شکل دے کر 18 برس کی عمر کے ہر برسر روزگار پاکستانی، ذاتی کام کے حامل شہریوں، غیر منظم شعبہ سے وابستہ اور ہوم بیسڈ کارکنوں کی پنشن منصوبہ میں ازخود رجسٹریشن اور ازخود کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے لیے یونیورسل نظام متعارف کرایا جائے اور لاکھوں ملازمین کے ای او بی آئی پنشن فنڈ کے استحکام اور پائیداری کے لیے ماہانہ کنٹری بیوشن کی موجودہ شرح 6 فیصد ماہانہ میں اضافہ کرکے اسے 10 فیصد ماہانہ کیا جائے جس میں آجر کا حصہ 8 فیصد اور ملازم کا حصہ 2 فیصد مقرر کیا جائے اور ای او بی آئی پنشن منصوبہ میں اپنے تمام ملازمین کی رجسٹریشن نہ کرانے والے اور واجب الادا کنٹری بیوشن کے نادہندہ آجران کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے، ای او بی آئی میں افرادی قوت کی شدید قلت کے پیش نظر فوری طور پر خالی اسامیوں کو پر کرنے کے لیے میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔ بصورت دیگر اس تمام تر تشویش ناک صورت حال کا سراسر خمیازہ مستقبل میں ریٹائر یا معذوری کا شکار ہوجانے والے لاکھوں ملازمین اور ان کے بے سہارا پسماندگان کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔