مزید خبریں

میڈیا ،فلموں اور ڈراموں نے نوجوانوں میں شادی کیلیے ہیروئن کی سوچ کو جنم دیا

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) میڈ یا ، فلموں اور ڈراموں نے نوجوانوں میںشادی کے لیے ہیرو، ہیروئن کی سوچ کوجنم دیا‘ٹی وی اور فلم کی تخیلاتی دنیاکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ نوجوانوںمیںصحیح اور غلط کی تمیز ختم کردی ‘کہانی کا محور جنسی ہوس ہوتی ہے ‘بدکردار شخص ہیروکے طور پرپیش کیا جاتاہے‘ غریب گھروں کی کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کے باعث بیٹھی رہ جاتی ہیں‘ شادی بیاہ کو مشکل کام بنادیا گیا۔ان خیالات کا اظہار سٹی کونسلراور ویمن اسلامک لائرز فورم کی سابق چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ، پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر اور ڈین فیکلٹی آف انفارمیشن و میڈیا سائنسز پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، الخدمت اسپتال ناظم آباد کے سینئر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر محمد فراز عالم، معروف بلاگر ڈاکٹر زرین زہرا اور ڈاکٹر ابو بکر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’آج کل نوجوانوں کو شادی کے لیے ہیرو یا ہیروئن کیوں درکار ہوتی ہیں؟‘‘ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج کے دور کے بچے بچپن سے لے کر جوانی عمر یعنی بلوغت تک دنیا کو اس طرح سے دیکھتے ہیں جو میڈیا ان کو دکھاتا ہے‘ اس میڈیا میں پیش کیے جانے والے ڈراموں، بڑی اسکرین پر پیش کی جانے والی فلمیں جن کی کہانی کا محور مرد یا عورت کا باہمی ملاپ یعنی سیکس ہوتا ہے‘ کہانی کے کردار ایسے پیش کیے جاتے ہیں ‘جیسے یہ کوئی عظیم ہستیاں ہوں جس کی وجہ سے یہ نوجوان نسل ان کرداروں کو اپنا آئیڈیل بنا لیتی ہے بلکہ اپنی زندگی کو ان کرداروں میں تلاش کرتی ہے ‘ اس کے علاوہ خاندان کا جو ایک سیٹ اپ ہوتا تھا جو بچوں کے لیے انسپائریشن کی چیز ہوتی تھی، تربیت گاہ، اسکول اور کالج میں جو ایک آئیڈیلزم اور ایک انسپائریشن پر سینلٹی دی جاتی تھی‘ ڈراموں اور فلموں کی وجہ سے اس کا بہت زیادہ فقدان ہے اور یہ سب کچھ لے کر حاصل حصول صرف میڈیا پر رہ گیا ہے‘ ہماری موجودہ نسل انسپائر صرف موبائل سے ہی ہوتی ہے‘ اسی کی عزت کرتی ہے اور سوشل میڈیا پر چلتی ہے‘ یعنی ہمارا قبلہ اور محور یہی ہو گیا ہے اور یہ آئیڈیلزم اس وقت مزید کامیاب ہو جاتا ہے جب نئی نسل کو متبادل اور حقیقی علم ساتھ نہ مل رہا ہو، اس طرح یہ نئی نسل اپنے آپ کو انہی کرداروں اور شخصیت میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کو مشکل کام بنادیا گیا ہے‘ لڑکے والے چاند سی بہو ڈھونڈنے کے لیے گھر گھر لڑکیاں دیکھتے پھرتے ہیں تو لڑکی والے 25 سال کے لڑکے سے ایسے جمے ہوئے کاروبار یا عہدے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جو عمومی طور پر 45 ، 50 سال کی عمر سے پہلے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ غریب گھروں کی کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کے باعث بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ لڑکے کیریئر بنانے کے چکر میں گھن چکر بنے رہتے ہیں‘ شادی کے مواقع پر ہونے والے فضول اخراجات اور رسم و رواج کی وجہ سے بھی متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد آدھی عمر شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے یا شادی پر لیا گیا قرضہ اتارنے میں ہی گزار دیتے ہیں۔ شادی بیاہ کو اس قدر مشکل بنا دینے میں سب سے زیادہ نقصان نوجوانوں کا ہی ہے۔ڈاکٹر محمد فراز عالم نے کہا کہ آج کل نوجوانوان کے ذہن میں ایک تاثر یہ ہے کہ جیون ساتھی کے لیے ان کو ایک ہیرو یا ہیروئن چاہیے تو دراصل اس کے پیچھے ایک اہم عنصر کار فرما ہے، وہ یہ ہے کہ جو ذہن سازی اور تربیت ہو رہی ہے وہ فلموں اور ٹی وی ڈراموں سے ہو رہی ہے‘ نوجوان شادی کے لیے ایسا لڑکا اور ایسی لڑکی چاہتے ہیں جو میڈیا میں ہیرو اور ہیروئن کے طور دکھائے جاتے ہیں‘ وہ وہی سمجھتے ہیں جو میڈیا میں دکھایا جاتا ہے‘ آج کا نوجوان جب ٹی وی ڈراموں سے متاثر ہو گا تو پھر یہی ہوگا کہ وہ انہی چیزوں کو اپنا آئیڈیل بنائے گا اور وہی چیزیں وہ چاہے گا کہ اس کو حقیقی دنیا میں مل جائے‘ اکثر ایک تخیلاتی دنیا، فلمی دنیا اور حقیقی دنیا میں بڑا فرق ہوتا ہے اور حقیقی زندگی کے اپنے کئی پہلو ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا سامنا کرنا ہوتا ہے جبکہ ٹی وی اور فلم کی دنیا ہمیں ایک تخیلاتی دنیا میں لے جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر ہم صحیح اور غلط کا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کیا حاصل کرنا اور کیا نہیں۔ میڈیا کی وجہ سے ہماری سوچ متاثر ہو رہی ہے۔ڈاکٹر زرین زہرا کا کہنا ہے کہ ٹی وی ڈراموں نے ہمارا دماغ خراب کیا ہوا ہے، اس کی وجہ سے ہمیں صحیح اور غلط انسان کی پہچان ہی نہیں ہوتی ہے‘ ڈراموں کی جتنی خوابناک یہ دنیا ہوتی ہے‘ اس میں رہتے ہوئے انسان اپنے آپ کو کوئی اور ہی مخلوق سمجھنے لگ پڑتا ہے جبکہ حقیقت میں چیزیں مختلف ہوتی ہیں تو پھر انسان کا دماغ کچھ اور ہی طرح سوچ بیچار کرتا ہے۔ ٹی وی اور ناولز جس میں ہیرو اور ہیروئن کو ایسے دکھایا جاتا ہے کہ میری مرضی کے بغیر یہاں نہ جاؤ، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، شادی کے بعد نوکری نہ کرنا، یہ نہیں پہن سکتی اور بے شمار مثالیں لی جا سکتی ہیں ۔ اس لیے سب سے پہلے جب آپ کسی لڑکی یا لڑکے کو رشتے کے لیے منتخب کر رہے ہیں تو یہ تسلی کر لیں کہ جو جیسا ہے آپ کو ویسا ہی قبول کرنا ہے۔ اس کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا آپ کا کام نہیں۔ اس سے نہ صرف اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے بلکہ اس کے اندر کی قابلیت بھی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ اگر آپ کو وہ اس حالت میں قبول نہیں ہے تو برائے مہربانی اس سے شادی مت کریں‘ یہ اصول مرد و خاتون دونوں کے لیے ہے۔ڈاکٹر ابوبکر کا کہنا ہے کہ بھارتی فلموں کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں ہیرو یا ہیروئن کا معیار بدلا جا رہا ہے‘ اگر ہم 80 اور 90 کی دہائی کی بات کریں تو ہیرو کا جو امیج پاکستانی نوجوانوں کے سامنے تھا وہ ہیرو مظلوم کے لیے مسیحا، محبت میں وحدانیت اور شادی سے پہلے محبوبہ کو چھونے سے محبت کے میلے ہو جانے کا قائل تھا، ماں کی ساڑھی اور چھوٹے بہن بھائیوں کے کل کے لیے اپنا آج قربان کرنے والاتھا، تب دیکھنے والوں کا بھی یہی مسلک رہا لیکن21 ویں صدی میں اب ہیرو کے کردار کو نئے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے‘ اس کے تحت آپ تب تک ہیرو جیسے نہیں بن سکتے جب تک آپ حد درجہ ہڈ حرام نہ ہوں، غلیظ گالیاں آپ کا تکیہ کلام نہ ہوں، دوستوں کے سامنے والدین کو برا بھلا کہنا آپ کا شعار نہ ہو، پانچ چھ لڑکیوں سے افئیر اور ز نا نہ کیا ہو، زندگی سے حد درجہ مایوس نہ ہوں اور خاص طور پر استاد کے گستاخ نہ ہوں، اگر یہ خوبیاں آپ میں نہیں ہیں تو آپ ہیرو نہیں بلکہ دوسرے درجے کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو بہر حال ہیرو سے کم تر ہوتا ہے۔