مزید خبریں

بڑوں کے دبائوکی وجہ سے الیکشن کمیشن بروقت انتخابات کرانے سے گریز کر رہا ہے

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) بڑوں کے دبائوکی وجہ سے الیکشن کمیشن بروقت انتخابات کرانے سے گریز کر رہا ہے‘ انتخابات کی تیاری کے بجائے منصوبوں پر عملدرآمد کرانا آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے‘ جنوری میں سخت سردی کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں‘ انتخابی تاریخ تب دی جائے گی جب گملوں میں پلنے والی قیادت کی عوام میں قبولیت نظر آئے گی۔ پاکستان میں عبوری حکومت قائم ہوچکی ہے اور اس نے اس سے قبل والی عوامی حکومتوں کے ایجنڈے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم سرکاری ادارہ اور انتخابات کرانے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن اپنے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے‘ 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا وہ پابند ہے مگر لگتا یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ کسی اور کا حکم ماننے کا پابند ہے اور جب تک وہاں سے “ہاں ” کا اشارہ نہیں ملے گا وہ ٹس سے مس نہیں ہوگا البتہ اس نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کرانے کا جو عندیہ دیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اس سلسلے میں جسارت نے مقتدر شخصیات سے سوال کیا کہ “الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات کی تاریخ متعین کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟”جن شخصیات نے رائے میں حصہ لیا ان میں جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات مولانا سمیع الحق سواتی، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی اور سماجی رہنما شگفتہ یوسف شامل ہیں۔ مولانا سمیع الحق سواتی کا کہنا تھا کہ جمعیت علما اسلام کا نقطہ نظر دیگر سیاسی جماعتوں سے ذرا مختلف ہے، ملک میں بدامنی کی حالیہ لہر کے دوران جس میں آئے دن خود کش دھماکے ہو رہے ہیں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے، ساتھ ہی اب تک الیکشن کمیشن کی جانب سے جو متوقع تاریخ سامنے آ رہی ہے اس پر جے یوآئی کو تحفظات ہیں ۔ جنوری اور فروری کی درمیانی مدت میں پاکستان شدید سردی کی لپیٹ میں ہوتا ہے‘ ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع شمالی علاقہ جات سابق فاٹا، ملاکنڈ ڈویژن بشمول بلوچستان کے اکثریتی اضلاع ان دنوں شدید برفباری کی لپیٹ میں ہوں گے۔ رائے دہندگان کے لیے ووٹ ڈالنا اور الیکشن کمیشن کے عملے کے لیے سرد موسم میں پولنگ اسٹیشنز تک رسائی اور انتظامات کرنا ناممکن لگ رہا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو سوچ و بچار کے بعد انتخابات کی ایسی تاریخ دینی چاہیے جو پوری قوم کے لیے قابل قبول بھی ہو اور انتخابات کا یقینی انعقاد ہوسکے‘ اگر الیکشن کمیشن اس کا ادراک نہیں کرے گا تو عین ممکن ہے کہ وطن عزیز میں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ووٹ کا استعمال کرنے کے حق سے محروم رہ جائے۔ جمعیت علمائے اسلام کو جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں الیکشن منعقد کرانے پر تحفظات ہیں‘ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کوئی متفقہ فیصلہ کرے تاکہ ہر زاویے سے تسلی کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاسکے۔ شمس الرحمن سواتی نے سوال کے جواب پر اپنی رائے زنی کرتے ہوئے ذو معنی بات کی اور کہا کہ “آپ سمجھ تو گئے ہوں گے” جنہیں انتخابات کے ذریعے قوم پر مسلط کرنا ہے انہیں پلیٹلیٹس کا مسئلہ درپیش ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ہر ادارہ وہ کام کر رہا ہے جو اس کی ذمے داری نہیں ہے جو اس کی ذمہ داری ہے وہ نہیں کر رہا‘ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے جس کے لیے اسے فرصت نہیں اور جو انتخابات جب کبھی اس نے کروائے انہیں قوم بھگت رہی ہے۔ 1970ء میں ایسے انتخابات کرائے کہ پاکستان دولخت ہوگیا ‘ 1977ء میں انتخابات کروائے کہ 11 سال تک نام نہاد جمہوریت غائب ہوگئی‘ 1985ء میں انتخابات کرائے تو گلیاں اور نالیاں بنانے والوں کے ہاتھ قوم کی تقدیر دے دی گئی اور وہ دن ہے اور آج کا دن قوم انتخابات کے ذریعے وژنری قیادت سے محروم ہے۔2018ء کے انتخابات اپنے وقت کا اتنا شاہکار تھے کہ نتیجہ قوم بدترین مہنگائی، غربت وافلاس کی صورت میں بھگت رہی ہے ‘ اب الیکشن کمشین تاریخ تب دے گا جب گملوں میں پلنے والی قیادت کو قبولیت عامہ کی صورت نظر آئے گی۔شگفتہ یوسف کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ نہیں بن سکا‘ وہ ہمیشہ سے حکومت کی منشا کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرتا رہا ہے اور کرے گا‘ اب بھی ایسا ہی نظر آتا ہے کہ انتخابات کی بھرپور تیاری کے بجائے چھوٹے بڑے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے حالا نکہ یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے‘ آئین پر عمل صرف باتوں اور وعدوں میں ہی نظر آتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو بھی یقین نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے جو جنوری کے آخری ہفتے کا وقت دیا ہے‘ اس میں سردی زوروں پر ہوگی اور کچھ علاقوں میں لوگ اپنے علاقوں میں موجود ہی نہیں ہوں گے۔ بہر حال تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب حکمرانوں کو نتائج اپنے حق میں نظر نہ آرہے ہوں تو وہ ملکی مفادات کو قربان کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے اور فرمان جاری کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ملکی مفاد میں کیا جا رہا ہے۔ مگر حالات بالکل اس کے برعکس ہی رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نگراں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر زور بڑھایا جائے۔ اور یہ زور صرف جماعت اسلامی جیسے پرخلوص اور وعدوں کی پاسداری کرنے والوں کی طرف سے ہی ہو سکتا ہے اور جماعت اسلامی اس کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہمنا سینیٹر مشتاق اس کی زندہ مثال ہیں جو پسے ہوئے عوام کے لیے غاصب قوتوں کامقابلہ کر رہے ہیں اور کوئی بل بھی من و عن پاس نہیں ہونے دیا اور بحث و مباحثہ کی روشنی میں دلائل کے ذریعے اس میں ترامیم و اصلاح کی غرض سے دوبارہ قومی اسمبلی بجھوائے اور پھر وہ نافذ ہوئے لہٰذا یہ بات اٹل ہے کہ حل صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ الیکشن کمیشن کو خود نہیں معلوم ہے کہ جو ادارے بروقت اور شفاف انتخابات نہیں کرانا چاہتے ان کا ایجنڈا کیا ہے ؟ الیکشن کمیشن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے وہ تو صرف بڑوں کے اشارے پر چلتا ہے اور اسی کی روشنی میں کام کرتا ہے بلکہ کام دکھاتا ہے۔