مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

احادیث اور تاریخ کا فرق
بعض حضرات تاریخی روایات کو جانچنے کے لیے اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں راویوں کو ائمہ رجال نے مجروح قرار دیا ہے، اور فلاں راوی جِس وقت کا واقعہ بیان کرتا ہے اْس وقت تو وہ بچہّ تھا یا پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور فلاں راوی ایک روایت جِس کے حوالے سے بیان کرتا ہے اْس سے تو وہ مِلا ہی نہیں۔ اِس طرح وہ تاریخی روایات پر تنقید حدیث کے اصول استعمال کرتے ہیں اور اِس بنا پر اْن کو رَد کردیتے ہیں کہ فلاں واقعہ سند کے بغیر نقل کیا گیا ہے اور فلاں روایت کی سند میں انقطاع ہے۔
یہ باتیں کرتے وقت یہ لوگ اِس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محدّثین نے روایات کی جانچ پڑتال کے یہ طریقے، دراصل احکامی احادیث کے لیے اختیار کیے ہیں، کیونکہ اْن پر حرام و حلال، فرض و واجب اور مکروہ و مستحب جیسے اہم شرعی امور کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ دین میں کیا چیز سنّت ہے اور کیا چیز سنت نہیں ہے۔ یہ شرائط اگر تاریخی واقعات کے معاملے میں لگائی جائیں، تو اِسلامی تاریخ کے اَدوارِ مابعد کا تو سوال ہی کیا ہے، قَرنِ اوّل کی تاریخ کا بھی کم از کم 9/10 حصّہ غیرمعتبر قرار پائے گا، اور ہمارے مخالفین اْن ہی شرائط کو سامنے رَکھ کر اْن تمام کارناموں کو ساقط الاعتبار قرار دے دیں گے جن پر ہم فخر کرتے ہیں، کیوںکہ اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی تنقید کے معیار پر اْن کا بیش تر حصّہ پورا نہیں اْترتا۔ حَد یہ ہے کہ سیرتِ پاک بھی مکمّل طور پر اِس شرط کے ساتھ مرتَب نہیں کی جاسکتی کہ ہر روایت، ثقات سے ثقات نے متّصل سند سے ساتھ بیان کی ہو۔ (خلافت و ملوکیت، ضمیمہ)
٭…٭…٭
اللہ پر ایمان
ایمان باللہ انسان کے زاویہ نظر کو اتنا وسیع کردیتا ہے جتنی خدا کی غیر محدود سلطنت وسیع ہے۔ انسان جب تک دنیا کو اپنے نفس کے تعلق کا اعتبار کرتے ہوئے دیکھتا ہے، اس کی نگاہ اسی تنگ دائرے میں محدود رہتی ہے جس کے اندر اس کی اپنی قدرت، اس کا اپنا علم اور اس کے اپنے مطلوبات محدود ہیں۔ اسی دائرے میں وہ اپنے لیے حاجت روا تلاش کرتا ہے۔ اسی دائرے میں جو قوت والے ہیں ان سے ڈرتا اور دبتا ہے اور جو کم زور ہیں ان پر فوقیت جتاتا ہے۔ اسی دائرے میں اس کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، تعظیم اور تحقیر محدود رہتی ہے، جس کے لیے بجز اس کے اپنے نفس کے اور کوئی معیار نہیں ہوتا۔ لیکن خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کی نظر اپنے ماحول سے نکل کر تمام کائنات پر پھیل جاتی ہے۔ اب وہ کائنات پر اپنے نفس کے تعلق سے نہیں بلکہ خداوند عالم کے تعلق سے نگاہ ڈالتا ہے۔ اب اس وسیع جہان کی ہر چیز سے اس کا ایک ہی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اب اس کو ان میں کوئی حاجت روا، کوئی قوت والا، کوئی ضار یا نافع نظر نہیں آتا۔ اب وہ کسی کو تعظیم یا تحقیر، خوف یا امید کے قابل نہیں پاتا۔ اب اس کی دوستی یا دشمنی، محبت یا نفرت اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں جس خدا کو مانتا ہوں وہ صرف میرا یا میرے خاندان یا میری قوم ہی کا خالق اور پروردگار نہیں ہے بلکہ خالق السماوات والارض اور رب العالمین ہے۔ اس کی حکومت صرف میرے ملک تک محدود نہیں بلکہ وہ مالک ارض وسما اور رب المشرق والمغرب ہے۔ اس کی عبادت صرف میں ہی نہیں کررہا ہوں بلکہ زمین وآسمان کی ساری چیزیں اسی کے آگے جھکی ہوئی ہیں۔ سب اسی کی تسبیح وتقدیس میں مشغول ہیں۔ اس لحاظ سے جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو کوئی اس کو غیر نظر نہیں آتا۔ سب اپنے ہی اپنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ہم دردی، اس کی محبت، اس کی خدمت کسی ایسے دائرے کی پابند نہیں رہتی جس کی حد بندی اس کے اپنے نفس کے تعلقات کے لحا ظ سے کی گئی ہو۔ پس جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا۔ (اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی)